ہیرو یا ولن: ڈاکو محمد خان کون تھا؟

ڈاکو محمد ڈھرل
کیپشن: محمد خان ڈھرنال
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: محمد خان ڈھرنال ذاتی دشمنی کا ستایا ہوا اور ریاست کے عتاب کا شکار ہو جانے والا پنجاب دھرتی کا طلسماتی کردار, نواب آف کالا باغ امیر محمد خان اور صدر ایوب خان کا مشترکہ دوست اور پھر اِن دونوں بڑی ہستیوں کے اختلاف کے نتیجہ میں اپنی جان بچانے کے لئے مارا مارا پھرتا وادی سون میں پناہ لینے پر مجبور ہونے والا ملک محمد خان ڈھرنال ۔

سچ ہے کہ پیٹ کی خاطر اس نے اپنی ذاتی فوج تیار کی اور اپنے علاقے کا بے تاج بادشاہ بنتے ہوئے اپنی ہی عدالت قائم کر لی, 1963  ﺳﮯ  1966  تک وہ اپنی ریاست کا بےتاج بادشاہ تھا۔ اس کی قائم کردہ عدالت میں 302 کے علاوہ پر قسم کے مقدمات پیش ہوا کرتے تھے، اس دوران 1964 کے صدراتی انتخابات آگئے، محمد خان کی اتنی طاقت تھی کہ اس نے وادی سون، تحصیل تلہ کنگ اور پنڈی گھیپ کے تمام بی ڈی ممبرز اور چیئرمین کے ووٹ صدر ایوب خان کو دلوائے تھے، بعد میں جب سیاسی لوگ ہی اس کے خون کے پیاسے بنے تو انسپکٹر اکبر شاہ کے سپرد یہ کیس سونپا گیا کہ کسی بھی طرح محمد خان ڈھرنالیے کو ختم کر دو.. لیکن انسپکٹر اکبر شاہ نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ وہ محمد خان کو گرفتار کرے گا اور پولیس مقابلے میں کبھی نہیں مارے گا.

یہ بھی سچ ہے کہ جب محمد خان نے خود کو پولیس کے حوالے کرنا چاہا تو ایس پی عبداللہ اسے مارنا چاہتا تھا لیکن انسپکٹر اکبر شاہ نے فوراً محمد خان کو ایسی جگہ گولی ماری کہ وہ محض زخمی ہوا، اسے فوری طور پر سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا جہاں سے صحتیابی کے بعد اسے جیل منتقل کردیا گیا۔ 12 ستمبر 1968 کو محمد خان ڈھرل کو 4 بار سزائے موت اور 149 سال قید مشقت کی سزا سنادی گئی تھی، کم و بیش 12 سال اسی حالت میں پھانسی کی کوٹھڑی میں زندگی گزانے والے محمد خان کو مقدمہ میں نہ وکیل کی اجازت تھی اور نہ ہی وہ کسی سے مل سکتا تھا۔ محمد خان کے اہل خانہ کی درخواست پر محمد خان کو ہائیکورٹ میں اپیل کرنے کا حق مل گیا اور  چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے ڈی ایس پی پر جرح کی اجازت بھی دی۔

اس جرح کے بعد ہائیکورٹ نے محمد خان کو دو سزائے موت کی سزا سے بری کردیا جبکہ دو میں سزا برقرار رکھی۔ فیصلہ ہوا کہ 8 جنوری 1976 کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا، اس کے چھوٹے بھائی فتح شیر نے 6 جنوری کو ہائیکورٹ میں اپیل دائر کردی اور اہلخانہ سے ملاقات کرادی گئی۔ بھانسی دئنے والے جلاد کو بھی بلایا گیا تھا،پھانسی سے صرف 5 گھنٹے قبل ہائیکورٹ کی جانب سے سزائے موت پر عملدرآمد سے روک دیا گیا۔ 1978 میں اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔

محمد خان 22 برس کی سزا کاٹنے کے بعد بالآخر 1989 میں بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدارتی آڈیننس کے تحت 60 سال کی زائد عمر قیدیوں کی سزا معافی کت تحت آزاد ہوگیا اور 29 ستمبر 1995 کو طبی موت پا کر اس دنیا سے رخصت ہوا. اسے آبائی گاؤں ڈھوک مصائب تحصیل تلہ کنگ ضلع چکوال میں دفن کیا گیا۔