ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ہسپتالوں کی نجکاری اور افسر شاہی

ہسپتالوں کی نجکاری اور افسر شاہی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) پنجاب حکومت نے افسر شاہی کے ساتھ مل کر ہسپتالوں کی نجکاری کا ایک خوفناک منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت ہسپتالوں کے تمام ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی نوکریاں ختم کر دی جائیں گی اور ہسپتال اپنے اپنے بورڈ کے ذریعے چلائے جائیں گے۔ ہسپتالوں کی نج کاری سے پہلے سے موجود تجربہ کار سٹاف فارغ کر دیئے جائیں گے اور نئے سرے سے تمام ڈاکٹرز، نرسز اور پیر امیڈیکس کو تین تین سال کا کنٹریکٹ دیا جائے گا۔

حکومت پنجاب نے یہ فیصلہ ہسپتالوں میں ڈیلیوری بہتر کرنے کیلئے کیا ہے لیکن جب کسی ڈاکٹر یا نرس کو جاب سکیورٹی نہیں ہوگی تو وہ کیا خاک دل جمعی سے کام کریں گے ۔ اس نجکاری میں انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا اور بورڈ آف گورنرز جسے چاہے گا مینجمنٹ دے گا اور ہسپتالوں میں غیر تجربہ کار افراد کو ایم ایس تعینات کر دیا جائے گا جیسا کہ اس وقت پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں جونیئر ڈاکٹروں کو ایم ایس لگایا گیا ہے۔

 آج پنجاب حکومت میں ایم ٹی آئی ایکٹ نافذ کرنے میں پیش پیش صوبائی وزیر ہیلتھ ڈاکٹر یاسمین راشد ماضی میں ہسپتالوں کی نجکاری کی سخت مخالف بھی رہی ہیں ،انہیں سابقہ دور میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا اور یہ عدالت سے ریلیف لے کر نوکری پر بحال ہوئی تھیں ،لیکن آج جب ڈاکٹر یاسمین راشد وزیر ہیلتھ بنی ہیں تو یہ ہسپتالوں کی نجکاری کر رہی ہیں ،جس میں ڈاکٹروں اور نرسوں اور پیرا میڈیکس کو ملازمت سے فارغ کرنے کی ایک بنیادی شق شامل ہے۔

 اس سے قبل حکومت نے تعلیم کو نجی شعبہ کے حوالے کر دیا ہے اور آج پنجاب میں سرکاری کالجز کی نسبت نجی شعبہ کے کالجز کی تعداد کہیں زیادہ ہو گئی ہے اور میٹرک تک تعلیم تو ویسے ہی نجی شعبہ کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اور سرکاری تعلیمی ادارے تعلیم سے فارغ ہو گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج بچوں کو تعلیم دلانا اتنا مشکل ہو گیا ہے کہ یہ ایک عام آدمی کیلئے بچوں کو تعلیم دلانا ناممکن تر ہوچکا ہے اور نجی شعبہ تعلیم کی فیسوں پر عدالت عظمیٰ کو مداخلت کرنا پڑی ہے اور عدالت نے نجی تعلیمی اداروں کو فیسوں میں اضافے سے روک دیا اور آج والدین نجی تعلیمی اداروں کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔

 یہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ جب ڈاکٹر یاسمین راشد خود ایک سرکاری ڈاکٹر تھیں تو وہ ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا کرتی تھیں لیکن آج جب وہ ایک سیاستدان بن گئی ہیں تو وہ ہسپتالوں کی نجکاری کرکے لاکھوں ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنے کے درپے ہے۔ جب ایک ڈاکٹر کو جاب سکیورٹی ہی نہیں ہوگی تو اس کی کارکردگی کیسے بہتر کی جا سکتی ہے۔ ہسپتالوں کے بورڈ آف گورنرز کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنایا گیا ہے ۔ یہ بورڈ جسے چاہے نوکری پر رکھے اور جسے چاہے نوکری سے فارغ کر دے اور جسے چاہے مفت علاج کی سہولت دے جسے چاہے لاکھوں روپے کا بل ڈال دے۔ یہ بورڈ آف گورنرز نجی شعبہ کے افراد پر مشتمل ہوگا جنہیں ہسپتال چلانے کا کوئی تجربہ بھی نہیں ہوگا۔

 بورڈ آف گورنرز ہسپتالوں کے تمام فنڈز کو استعمال کرنے کا بھی اختیارکھتا ہوگا۔ اب منصوبہ بندی یہ ہو رہی ہے کہ جس طرح تعلیم نجی شعبہ کے ہاتھ میں چلی گئی ہے ،اسی طرح ہیلتھ کوبھی نجی شعبہ کے ہاتھ میں دیاجا رہا ہے اور ہسپتالوں کی نجکاری سے سبسڈی پر ملنے والی میڈیکل ایجوکیشن بھی اتنی مہنگی ہو جائے گی کہ یہ ایک عام طالبعلم کیلئے سرکاری میڈیکل کالجوں میں تعلیم حاصل کرنا مشکل تر ہو جائے گا۔ ہسپتالوں کی مینجمنٹ اور آﺅٹ پٹ کو بہتر کرنے کے کئی اوربھی طریقے ہیں۔ ہسپتالوں میں وقت کی پابندی اور سینئر ڈاکٹروں اور پروفیسرز کو ہسپتالوں میں مقرر کردہ وقت تک رہنا اور ہر ڈاکٹر کیلئے ہسپتالوں میں ایک ماہ میں آپریشن کرنے کا ٹارگٹ مقرر کرنا اور بائیو میٹرک حاضری اور ڈاکٹروں اور دیگر سٹاف کا احتساب جیسے کام کرکے ہسپتالوں کی کارکردگی کو مزیدبہتر کیا جا سکتا ہے۔

ہسپتالوں کی حالت زار کو بہتر کرنے کے لئے مخیر حضرات کو بھی آگے لایا جا سکتا ہے۔ ہسپتالوں کو خود مختار بنایا جا سکتا ہے اور ہسپتالوں کی مینجمنٹ پہلے ہی خود مختار ہے۔ لیکن جاب سکیورٹی ہر ڈاکٹر، نرس، اور پیرا میڈیکس کا ایک بنیادی حق ہے، جسے تسلیم کیا جانا چاہئے ۔ حکومت پنجاب نے ہسپتالوں کی نجکاری کا فیصلہ تو کر لیا ہے لیکن حکومت کے تھانوں اور ضلعی دفاتر کے بارے میں کیا خیال ہے ؟کیا آج کی بیوروکریسی کو بھی پرائیویٹائز کیا جا سکتا ہے ۔

 ایک سیکرٹری، کمشنر، اور ڈی سی کو تو جاب کی مکمل سکیورٹی ہے لیکن ایک ڈاکٹر اور ایک نرس کو کیوں نہیں؟ کیا ڈاکٹر اور نرس اچھوت ہیں اور اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ حالت تو پولیس کی بری ہے، جہاں پر ایک عام آد می رسوا ہو رہا ہے لیکن وہاں پر تو کوئی نجکاری نہیں کی جا رہی اور نہ ہی اس نظام کو بہتر کرنے پر کوئی کام ہو رہا ہے۔ افسر شاہی کے اوپر بورڈ آف گورنرز کیوں نہیں بنایا جاتا؟ کیا بیوروکریسی ایک طاقتور طبقہ ہے؟۔ پنجاب کے چالیس محکموں کی حالت ابتر ہے، وہاں پر عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا ہے، لیکن حکومت وہاں پر کوئی کام نہیں کر رہی ہے۔

  ہسپتالوں میں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ ہو تو رہا ہے، اور کم از کم ایک غریب آدمی کو مفت علاج کی سہولت میسر ہے اور جب ان ہسپتالوں کی نجکاری کر دی جائے گی تو مریضوں کومفت ادویات نہیں ملیں گی اور مفت علاج کا تصور ہی سرے سے ختم ہو جائے گا،حکومت ہسپتالوں کی نج کاری کرنے کے بجائے تھانہ کچہری کی بہتری کیلئے کام کرے جہاں سے لوگوں کو سب سے زیادہ شکایات ہیں،حکومت کوبیوروکریسی کی اصلاحات پر کام کرنا چاہئے اور عوام کے روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینی چایئے اور ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور نرسوں کو فارغ کرنے کی بجائے ہسپتالوں کی مینجمنٹ اور آﺅٹ پٹ اور ڈیلیوری کو بہتر کیا جائے۔ اگر ایک بیوروکریٹ اور ایک پولیس افسر کو جاب کی سکیورٹی حاصل ہے تو ایک ڈاکٹر اور ایک نرس کو بھی جاب سیکورٹی کا اتنا ہی حق دیا جائے

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر