ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

justice faiez isa of pak supreme court
کیپشن: justice faiez isa
سورس: city42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 امانت گشکوری:   سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔جسٹس یحیٰی آفریدی کا اضافی نوٹ بھی فیصلے کا حصہ ہے۔

فیصلے کےاہم نکات :

سپریم کورٹ یا کوئی ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کارروائی کا نہیں کہہ سکتا۔

صدر مملکت کی سفارش کے بغیر سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی نہیں کر سکتی۔

سپریم کورٹ از خود نوٹس کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل پر استعمال نہیں کر سکتی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو احکامات دیئے گئے۔

جج کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق اپنی اہلیہ اور بچوں کے معاملات کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی، جسٹس یحیی آفریدی کا اضافی نوٹ

سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کو ایف بی آر کو کمشنر کی دی گئی معلومات پر جج کے خلاف کارروائی کا حکم نہیں دے سکتی، اضافی نوٹ

 سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی نظرثانی کیس کا فیصلہ جاری کردیا ہے ۔سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی فیصلہ 45 صفحات پر مشتمل ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ 9 ماہ 2 دن کے بعد جاری کیا اور جسٹس یحیٰی آفریدی کا اضافی نوٹ بھی فیصلے کا حصہ ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ اہلیہ سرینا عیسٰی کی نظر ثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں اور 10 رکنی لارجر بینچ نے چھ چار کے تناسب سے سرینا عیسٰی کے حق میں فیصلہ سنایا۔

سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا تاہم آج تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

فیصلہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین نے تحریر کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں اور کوئی بھی شخص چاہے وہ اس عدالت کا جج کیوں نہ ہو اس کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ، جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 تک ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔

اگر کوئی شہری عوامی عہدہ رکھتا ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے اور قطع نظر کسی عہدہ یا پوزیشن کے ہر پاکستان قانون کے مطابق سلوک کا حقدار ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ یا کوئی ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کارروائی کا نہیں کہہ سکتا۔صدر مملکت کی سفارش کے بغیر سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی نہیں کر سکتی۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ ججز کے تحفظ،احتساب اور ہراسگی سے بچانے کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے اورسپریم کورٹ از خود نوٹس کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل پر استعمال نہیں کر سکتی۔سپریم جوڈیشل کونسل کو سپریم کورٹ کا حکم آرٹیکل 211 کی خلاف ورزی ہے۔

  فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بعض اوقات ججز کی ساکھ متاثر کرنے کیلئے کوششیں ہوتی ہیں۔ججز کے پاس اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے عوامی فورم بھی نہیں ہوتا۔ ایسی صورتحال میں عدلیہ کی بطور آئینی ادارہ عوام کی نظر میں ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اوپن عدالت شیشے کے گھر جیسی ہے جس میں ججز بڑے بڑوں کےخلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں،

 جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو احکامات دیئے گئے۔جسٹس قاضی فائز عیسی اور انکی اہلیہ کو نوٹس دیکر دفاع کا حق دینا چاہیئے تھا۔ فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی نظیر بھی پیش کی گئی۔ جس کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے بھی نوٹس دیکر فریق کو دفاع کا حق دینے پر زور دیا۔ 

 جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور انکے بچے عام شہری ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور انکے بچوں کے ٹیکس معاملات پر از خود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کیا جا سکتا۔جج کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق اپنی اہلیہ اور بچوں کے معاملات کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ہر شخص کو اپنے کیئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہوتا ہے۔جب تک ملوث ہونے کے واضح ثبوت نہ ہوں کسی اور کی غلطی پر دوسرے کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسی کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا۔ سیرینا عیسی سے انکے بیان میں معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا نہیں پوچھا گیا تھا۔ صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سیرینا عیسی کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا

جسٹس یحیی آفریدی کے اضافی نوٹ  میں قراردیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 19 جون 2020 کے فیصلے میں ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا آرٹیکل 211 اور انکم ٹیکس آرڈیننس کی حدود سے باہر تھا۔سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی، جوڈیشل کونسل کو اختیار ہے کہ اعلی عدلیہ کے جج کے خلاف کارروائی مثبت طریقہ کار سے کرے۔ایسی کارروائی پر عدالتوں کو کونسل کی بالادستی اور آئینی آزادی برقرار رہنے دینی چاہیے۔سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کو ایف بی آر کو کمشنر کی دی گئی معلومات پر جج کے خلاف کارروائی کا حکم نہیں دے سکتی۔سپریم جوڈیشل کونسل کو تحقیقات کا حکم دینا سپریم کورٹ کو فیصلہ کنندہ سے شکایت کنندہ بنا دیتا ہے۔انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت ٹیکس کنندگان کے خلاف کاروائی کا مکمل طریقہ کار موجود ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں ٹیکس حکام کو کارروائی کا حکم آرڈیننس میں درج طریقہ کار کے خلاف دیا۔سپریم کورٹ نے عبوری فیصلے میں ٹیکس حکام کو تحقیقات کا حکم دے کر قانون ساز کا کردار ادا کیا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ  ایف بی آر  تحقیقات کی رو سے ٹیکس کنددگان کی ذاتی معلومات پبلک نہیں کر سکتی۔ غیر قانونی ہدایات کی وزیراعظم نے توثیق کی جس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسی بطور جج بنیادی حقوق کیلئے 184/3 کی درخواست دینے کے اہل نہیں۔

جسٹس یحیی کے اضافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر نے وزیر قانون کی مشاورت سے ایف بی آر کو  تحقیقات کا کہا اور شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کا ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غیر قانونی ہے۔سرینا عیسی کے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی غیر قانونی طریقے سے لی گئی جس کے بعد شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کو عہدے پر برقرار رکھنا وزیر اعظم کو بھی غیر قانونی کام میں شریک ٹھہراتا ہے۔  شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کو غلط کام کی اجازت دینا وزیراعظم کے گڈ گورننس کے اصول کی نفی ہےاور  یہ عمل غیر قانونی کام میں وزیر اعظم کی شمولیت کو بے نقاب کرتا ہے۔