صیہونی قوتوں کے آلہ کار یہودی کو جلسہ کرنے دو

از : عامر رضا خان 

29 Apr, 2024 | 09:44 PM

مولانا فضل الرخمٰن بولے اور خوب بولے اسمبلی میں جب مولانا نے بولنا شروع کیا تو اسمبلی میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی مولانا نے کیا کیا پتے کی باتیں کیں اُن کا کہنا تھا کہ ہم کب تک اُن (اسٹیبلشمنٹ) کے دروازوں پر بیٹھ کر بھیک مانگتے رہیں گے ہمیں تو 2018 کے انتخابات پر بھی اعتراض تھا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو بھی اعتراض تھا اسی مینڈیٹ کے ساتھ اس وقت دھاندلی کیوں تھی؟ اور اج کیوں نہیں ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ اس بار اسمبلیاں بیچی گئی ہیں اسمبلیاں خریدی گئی ہیں جمہوریت اج کہاں کھڑی ہے ہم اس لیے کمزور کھڑے ہیں کہ  ہر مرحلے پر ہم نے سمجھوتہ کیا ہم نے جمہوریت بیچی ہےہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے آقا بنائے ہیں ہارنے والے بھی پریشان اور جیتنے والے بھی مطمئن نہیں ہیں حکومت میں بیٹھی جماعتوں کے اندر سینئر لوگ مجبور ہیں کہ وہ اپنے ہی مینڈیٹ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں ہم یہاں پر ایک قانون پاس نہیں کر سکتےجو آپ کے ماتحت ہونے چاہئے تھے وہ آج ہمارے آقا ہیں اور ان کے حکم پر ہم چل رہے ہیں ہم یہاں ہر ایک قانون نہیں پاس کرسکتے ہم قانون سازی کا بھی اختیار نہیں رکھتے بھارت اور ہم ایک ہی دن آزاد ہوئے، آج وہ دنیا کی سپر طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے دیوار کے پیچھے جو قوتیں ہمیں کنٹرول کرتی ہیں، فیصلے تو وہ کریں اور منہ ہمارا کالا کریں؟ خوش ہوتے ہیں کہ آئی ایم ایم ایف نے نئی قسط جاری کردی، اپنی صلاحیت کدھر ہے ہماری؟ ہم نے یہ ملک جس جمہوری انداز کے ساتھ حاصل کیااس ملک کے قائم ہونے میں نہ بیوروکریسی کا کوئی کردار ہے نہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہےقائد اعظم نے عوام کو جو منشور دیا تھا اتحاد، تنظیم ، اور یقین محکم اج کہاں ہے سوچنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو نتائج مرتب کر کے دے اس پر کب تک آپ سمجھوتے کرتے رہیں گےاس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ. ہمارا ملک آج کہاں کھڑا ہےاس بات کو سوچا جائے کہ اج عوام کہاں کھڑے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کہاں کھڑے ہیں ہماری نمائنگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اسد قیصر جو مطالبہ کر رہے تھے انکا مطالبہ صحیح ہے جلسہ کرنا ان کا حق ہے میں انکے مطالبے کی. حمایت کرتا ہوں ، سیاسی لوگوں سے سیاسی انداز میں بات ہونی چاہیے ۔
مولانا کا انداز گفتگو اور الفاظ کا چناو ہمیشہ ہی دلنشین اور عمدہ ہوتا ہے جس طرح انہوں نے امبلیوں کی خریدو فروخت کو صرف شنید قرار دیکر الزام لگایا ہے وہ قابل تعریف ہے لیکن مولانا فضل الرخمٰن صاحب سے اگر چند ایک سوال کرلیے جائیں تو کوئی گستاخی تو نہیں ہوگی ۔ 
میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آج آپ نے قائد اعظمؒ کا نام لیا تاریخ میں اس عظیم شخصیت کو کافر اعظم توبہ نعوذ بااللہ " نقلِ کفر کفر نا باشد " کس جماعت نے قرار دیا تھا ؟ کس جماعت نے مسلم لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کی جماعت اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے والی جماعت کہہ کر کانگریس کا ساتھ دیا تھا ؟ کس جماعت نے ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر نو جماعتی قومی اتحاد بنایا تھا ؟ کس جماعت نے افغان جہاد کو جہاد پاکستان کہہ کر طالبائزیشن میں ایک فوجی آمر کا ساتھ دیا تھا ؟ کس جماعت نے کبھی کسی آمر کے خلاف کوئی ایک موومنٹ نہیں چلائی ایوب سے مشرف تک اگر چلائی ہے تو مجھے ضرور آگاہ کریں ؟ کس جماعت نے عمران خان کو صیہونی ایجنٹ اور یہودی آلہٰ کار قرار دیا تھا ؟ کس نے تحریک انصاف کے خلاف بننے والے اتحاد کی سربراہی کی تھی ؟ کون تھا جو جلسوں جلوسوں میں عمران خان کو ملکی سلامتی پر سوالیہ نشان قرار دیتا رہا ؟
میرا خیال ہے کہ مولانا اس وقت تاریخ کی درست سمت نا بھی ہوں تو اس سمت کو درست کرنا چاہ رہے ہیں ہمیشہ کیطرح وہ ایک بار پھر اپنی شکست کا دکھ سنا رہے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی بھارت کیطرح ترقی کرئے لیکن انہیں یہ نظر نہیں آرہا کہ بھارت کروڑوں مسلمانوں کا استحصال کرکے یہاں تک آیا ہے وہ ایک ابھرتی ہوئی معیشت ضرور ہے لیکن اُس نے اپنے ہر ہمسائے بشمول پاکستان کو اپنے دفاع کے حق سے بھی محروم کرنا چاہا ہے ، بلوچستان ، اور خیبر پکتونخواہ میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت پر براہ راست الزامات اور ثبوت موجود ہیں لیکن کیا کیا جائے اس کمبخت سیاست کا کہ ووٹ آف نو کانفیڈینس میں تو سب ایک جمہوری عمل کا حصہ تھا لیکن اقتدار میں حصہ نا ملے تو یہ سب اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے ۔
مجھے اُن تمام سوالات کے جوابات چاہیے جس کے بعد میں مولانا کی پرزور حمایت کرنا چاہتا ہوں کہ جسے وہ یہودی و صیہونی طاقتوں کا ایجنٹ کہتے تھے اُسے جلسے کی اجازت دینی چاہیے  ۔

مزیدخبریں