سٹی42: جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم نے بھی عزم کر رکھا ہے کہ "اس غلامی" کے خلاف جنگ لڑیں گے. 2 مئی کو کراچی میں ملین مارچ کریں گے اور 9 مئی کو پشاور میں ملین مارچ کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کے قیام میں بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں،مسئلہ یہاں تک محدود نہیں کہ ہم جلسہ کرسکتے ہیں یا نہیں ،یہ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ ہے یا اسٹبلشمنٹ کی ترتیب دی گئی پارلیمان ہے،اس بات کو سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ آج ملک کہاں کھڑا ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ ہم پارلیمان کی حیثیت سے اس سوال سے نکلیں گے یا مزید دھنستے چلے جائیں گے ،ملک کے قائم ہونے میں بیورو کریسی اور اسٹبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ، ہم نے یہ ملک برصغیر کے مسلمانوں کی تائید اور قربانیوں سے حاصل کیا ۔ان کاکہناتھا کہ اس ملک میں محلاتی سازشوں پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں ،ہم نے یہ ملک جس جمہوری انداز کے ساتھ حاصل کیا،اس ملک کے قائم ہونے میں نہ بیوروکریسی کا کوئی کردار ہے نہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے،قائد اعظم نے عوام کو جو منشور دیا تھا اتحاد، تنظیم ، اور یقین محکم آج کہاں ہیں،سوچنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو نتائج مرتب کر کے دے اس پر کب تک آپ سمجھوتے کرتے رہیں گے،کب تک ان کے دروازوں پر بیٹھ کر بھیک مانگتے رہیں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ ہمیں تو 2018 کے انتخابات پر بھی اعتراض تھا،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو بھی اعتراض تھا،اسی مینڈیٹ کے ساتھ اس وقت دھاندلی کیوں تھی اور آج کیوں نہیں،ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ اس بار اسمبلیاں بیچی گئی ہیں،اسمبلیاں خریدی گئی ہیں،انہوں نے کہاکہ قائد اعظم کا پاکستان کہاں ہے آج ،کیا وجہ ہے کہ آج ایوان پر سوال اٹھایا جارہا ہے ، ایک زمانے میں ایک صدر مملکت نے پانچ وزیراعظم تبدیل کئے۔ فضل الرحمان نے الزام لگایا کہ اس باراسمبلیاں خریدی اور بیچی گئی ہیں ۔ انہوں نے کہا خدا کرے کہ یہ بات غلط ہو مگر ہماری معلومات یہ ہیں کہ اسمبلیاں خریدی اور بیچی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت آج کہاں کھڑی ہے،ہم اس لیے کمزور کھڑے ہیں کہ ہر مرحلے پر ہم نے سمجھوتہ کیا،ہم نے جمہوریت بیچی ہے، ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے آقا بنائے ہیں،ہارنے والے بھی پریشان اور جیتنے والے بھی مطمئن نہیں ہیں،حکومت میں بیٹھی جماعتوں کے اندر سینئر لوگ مجبور ہیں کہ وہ اپنے ہی مینڈیٹ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں،مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ ہم یہاں پر ایک قانون پاس نہیں کر سکتے،جو آپ کے ماتحت ہونے چاہئے تھے وہ آج ہمارے آقا ہیں اور ان کے حکم پر ہم چل رہے ہیں،ہم یہاں ہر ایک قانون نہیں پاس کرسکتے،ہم قانون سازی کا بھی اختیار نہیں رکھتے،بھارت اور ہم ایک ہی دن آزاد ہوئے، آج وہ دنیا کی سپر طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ دیوار کے پیچھے جو قوتیں ہمیں کنٹرول کرتی ہیں، فیصلے تو وہ کریں اور منہ ہمارا کالا کریں؟خوش ہوتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے نئی قسط جاری کردی، اپنی صلاحیت کدھر ہے ہماری؟ہم سب مل کر سوچیں ذرا جمہوریت کہاں ہے ہماری اسمبلیوں کی قدر و قیمت نہیں،اسمبلیوں میں آنے والا خود کو معزز سمجھتا ہے،اپنے ضمیر سے پوچھیں کیا ہم مطمئن ہیں ان نتائج سے،سپیکر صاحب کیا آپ لاہور کے نتائج سے مطمئن ہیں ،مولانا کی بات پر سپیکر مسکرا دیئے ،مولانا نے سپیکر قومی اسمبلی کو کمنٹ کیا کہ آپ مطمئن ہیں مطمئن رہیں ،معیشت کی کیا صورتحال ہے۔
ان کا کہناتھا کہ پاکستان ایک سیکولر سٹیٹ کا روپ دھار چکا ہے،دہشتگرد کئی گنا طاقتور بن کر واپس کیسے آگئے؟کوئی ہمیں سکھائے تو سہی کیا سیاست ہو رہی ہے؟آج تمام عرب ممالک میں امریکی فوجیں موجود ہیں،فلسطین میں چالیس ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہو چکے ہیں،سب سے زیادہ بچے ان دنوں میں غزہ میں شہید ہوئے ہیں،میں کس ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں،ان کاکہناتھا کہ نواز شریف، شہباز شریف بلاول بھٹو سے کہتا ہوں کہ عوام میں جاتے ہیں، چھوڑو اس اقتدار کو،ہم نے بھی عزم کر رکھا ہے کہ اس غلامی کے خلاف جنگ لڑیں گے،2 مئی کو کراچی میں ملین مارچ ہو گا ،9 مئی کو پشاور میں ملین مارچ ہو گا۔
قومی اسمبلی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کے جلسے کرنے کے حق کی بھی حمایت کر دی، مولانا نے کہاکہ اسد قیصر جو مطالبہ کر رہے تھے انکا مطالبہ صحیح تھا، جلسہ کرنا ان کا حق ہے،میں انکے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں۔