غزہ میں قیامتِ صغریٰ کا دوسرا روز

Gaza, Hamas, Israel Ground Offensive, United Nations, AFP Report
کیپشن: Several days old File Photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: غزہ میں جمعہ کی شب سے قیامتِ صغریٰ برپا ہے۔ سو اسرائیلی طیاروں کی مسلسل بمباری کے کور کے ساتھ اسرائیلی فوج نے غزہ میں بڑے پیمانہ پر زمینی حملہ کا بھی آغاز کر دیا۔ اطلاعات ہیں کہ جمعہ کی رات بڑے پیمانہ پر اسرائیلی فوجی غزہ کے اندر اتارے گئے، وہاں سے بہت سے ہیلی کاپٹروں کو مسلسل واپس جاتے دیکھا گیا جن کے بارے میں گعرب ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ زخمیوں اور لاشوں کے لے کر جا رہے تھے۔

اسرائیل کی فوج کی جانب سےغزہ پر تین ہفتوں تک مسلسل بمباری کے بعد جمعہ کی شب گراؤنڈ اوفینسو کے آغاز کے بعد  آج ہفتہ کے روز کہا گیا کہ اسرائیل کی حماس کے ساتھ جنگ اب نئے مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے۔

جمعہ کی شب غزہ میں کیا ہوا؟

اسرائیلی فوج ن کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ جمعہ کی شب اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے 150  سرنگوں، زیر زمین جنگی تہ خانوں اور اضافی زیر زمین انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا اور حماس کے متعدد ارکان مارے گئے۔ بین الاقوامی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ جمعہ کی شب غزہ کے شمالی اور وسطی علاقوں میں سو سے زیادہ لڑاکا طیاروں نے بمباری میں حصہ لیا، اس بڑے  پیمانہ کی جنگی کارروائی میں ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے جبکہ بڑے پیمانہ پر زمینی کارروائی بھی شروع کر دی گئی۔

ہزاروں افراد جاں بحق ہونے کا خدشہ

جمعہ کی شب غزہ میں ہونے والے جانی نقصانات کی مصدقہ اطلاعات اب تک دستیاب نہیں ہو سکیں تاہم مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی محدود معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ایک رات میں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے کیونکہ اسرائیلی کے جنگی جہازوں نے متعدد ایسے علاقوں پر بمباری کی جہاں سے لوگوں نے جمعہ کی شب تک انخلا نہیں کیا تھا۔

حماس کےخلاف جنگ 'نئے مرحلے میں

بین الاقوامی خبر رساں ادارہ اے ایف پی کے مطابق اسرائیل نے ہفتے کے روز کہا کہ حماس کے ساتھ اس کی جنگ "ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے"  اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ، 7 اکتوبر کو غزہ کی سرحد پر حماس کے بندوق برداروں کے حملے میں 1,400 افراد ہلاک ہوئےتھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے،حماس نے 220 سے زائد یرغمالیوں کو پکڑ لیا تھا  اور انہیں اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔

اسرائیل کی طرف سے 2005 میں فلسطینی سرزمین سے یکطرفہ طور پر فوجیوں اور آباد کاروں کو واپس بلانے کے بعد سے غزہ میں یہ پانچواں اور مہلک ترین تنازعہ ہے۔

2007 سے غزہ پر حکمرانی کرنے والے اسلامی گروپ حماس کے خلاف شدید اسرائیلی حملے، زمینی کارروائیوں کے ساتھ ہی ہوئے اور ایک متوقع مکمل حملے سے قبل غزہ کی سرحد کے ساتھ دسیوں ہزار فوجیوں کے جمع ہونے کے بعد سامنے آیا۔

اسرائیلی فورسز نے بدھ اور جمعرات کو بھی محدود زمینی دراندازی کی گئی تھی۔

اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے ہفتے کے روز ایک ویڈیو میں کہا کہ ہم جنگ کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ "گزشتہ رات، غزہ کی زمین ہل گئی۔ ہم نے زمین کے اوپر اور زمین کے نیچے حملہ کیا۔ ہم نے ہر مقام پر دشمن کی تمام صفوں پر حملہ کیا۔"

اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے ہفتے کے روز غزہ شہر پر پمفلٹ گرائے جن میں غزہ کے رہائشیوں کو متنبہ کیا گیا کہ یہ علاقہ اب "میدان جنگ" بن چکا ہے۔"شمالی غزہ اور غزہ کی گورنری میں پناہ گاہیں محفوظ نہیں ہیں،" ان علاقوں کےرہائشی جنوب کی طرف "فوری طور پر انخلا" کریں۔

اسرائیلی فوج نےپہلے بھی اسی طرح کی وارننگز دی تھیں۔

دوسری جانب ترجمان اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں گزشتہ رات کو داخل ہونے والی اسرائیلی فوجی اب بھی موجود ہے، فلسطینی انکلیوو میں فوجی کارروائیوں میں توسیع کی ہے۔

 اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ آج خوراک، پانی اور ادویات لے جانے والے ٹرک غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دیں گے۔

 یرغمالی چھڑوانے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نےہفتہ کے روز غزہ کے شہریوں کو اپنے گھر خالی کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ یہ غزہ میں زمینی جنگ شروع ہو چکی ہے، یہ جنگ کا دوسرا مرحلہ ہے، غزہ کے شہری اپنے گھر خالی کرکے چلے جائیں۔

تل ابیب میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ غزہ میں موجود یرغمالیوں کو رہا کرانے کیلئے ہم سب کچھ کریں گے، غزہ پٹی پر اسرائیلی حملے جاری ہیں، طیاروں، بحری جنگی جہازوں سے بمباری اور ٹینکوں سے گولا باری کی جارہی ہے۔ غزہ پٹی کے اندر جنگ مشکل اور طویل ہوگی۔

حملہ ناکام بنا دیا، حماس کا اعلان

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیلی فوج کا تین طرفہ حملہ ناکام بنانے اور صیہونی فورسز کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔حماس کے سینئر عہدیدار علی براکہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے رات بھر غزہ پر زمینی حملے اور بمباری کی تاہم غزہ پر اسرائیلی فوج کا تین طرفہ زمینی حملہ ناکام ہو گیا۔

علی براکہ نے کہا کہ غزہ پر حملے میں دشمن کو فوجیوں اور سامان کے لحاظ سے بھاری نقصان ہوا، دشمن کئی محاذوں پر فلسطینی مزاحمت کے تیار کردہ جال میں پھنس گیا ہے۔ حماس کے لیڈر نے بتایا کہ اسرائیلی حملے پسپا کرنے کیلئے روسی ساختہ ٹینک شکن میزائل اور مقامی طور پر تیار یاسین میزائل استعمال کیے گئے، اسرائیلی فوج نے ہیلی کاپٹروں سے زخمیوں اور لاشوں کو نکالا۔

اقوام متحدہ اور یورپی یونین کا خدشہ

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے حماس کے زیرانتظام فلسطینی علاقے میں زمینی کارروائیوں میں اضافے کے نتیجے میں مزید ہزاروں شہری ہلاک ہو سکتے ہیں، جب کہ یورپی یونین نے امداد کی ترسیل کو ممکن بنانے کے لیے دشمنی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے " غزہ میں بڑے پیمانے پر زمینی کارروائیوں کے ممکنہ تباہ کن نتائج" سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ "ہزاروں مزید شہری" ہلاک ہو سکتے ہیں۔

- 'ایک ہارر فلم' -
غزہ ک میں حماس کی حکومت کے شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال نے اے ایف پی کو بتایا کہ رات بھر کے حملوں میں سیکڑوں عمارتیں اور مکانات مکمل طور پر تباہ  ہوئےاور ہزاروں دیگر مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔

شمالی غزہ کی پٹی میں الشطی پناہ گزین کیمپ میں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے درمیان، ایک فلسطینی علا مہدی نے اسرائیل کی بمباری کو "زلزلے" سے تشبیہ دی۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ "اگر یہ قدرتی زلزلہ ہوتا تو یہ کل رات کے آنے والے واقعات سے کہیں زیادہ آسان ہوتا"۔

غزہ شہر کے رہائشی جہاد مہدی نے اے ایف پی کو بتایا، "گزشتہ رات جو کچھ ہوا وہ بہت زیادہ خوفناک فلم کی طرح تھا۔" گلیوں میں لوگ چلتے پھرتے بے جان جسم بن گئے ہیں۔

حماس کا جوابی حملہ

حماس کے مسلح ونگ عزالدین القسام بریگیڈز نے کہا کہ اس نے ہفتے کے روز سرحد کے قریب شمالی غزہ کے ایک علاقے میں اسرائیلی فورسز کو نشانہ بنایا۔

- اسرائیل کے شہریوں میں گہرا خوف -
حماس کے زیر حراست اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے ہفتے کے روز فوج کے شدید حملوں کے بعد حکومت سے ان کی قسمت کے بارے میں فوری وضاحت کا مطالبہ کیا۔

یرغمالیوں اور لاپتہ خاندانوں کا فورم، جو تقریباً 229  مغوی افراد کی نمائندگی کرتا ہے، جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں 7 اکتوبر کے حملوں کے دوران حماس نے اغوا کیا ہے، اس فورم کے نمائندوں نے کہا کہ جنگی کابینہ لواحقین کو یہ بتانے میں ناکام رہی ہے کہ آیا زمینی کارروائی سے قیدیوں کی خیریت کو خطرہ لاحق ہےیا نہیں۔

ہفتے کے روز تل ابیب میں ایک اجتماع کے دوران سینکڑوں افراد نے جواب نہ ملنے کی صورت میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کی دھمکی دی۔ اس اجتماع کے ترجمان35 سالہ ہیم روبنسٹین نے کہا، "(مغویوں کے)خاندان سوتے نہیں ہیں، وہ جواب چاہتے ہیں، وہ جوابات کے مستحق ہیں،" 

کتنے یرغمالی مارے جا چکے؟

جمعرات کو، حماس کی عزالدین القسام بریگیڈز نے کہاتھا کہ 7 اکتوبر سے اسرائیلی بمباری میں "تقریباً 50" یرغمالی مارے جا چکے ہیں۔ اے ایف پی فوری طور پر اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کر سکی۔ جمعہ کی شب اور ہفتہ کے دن کے دوران ہونے والی کارروائیوں کے بعد کچھ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ حماس کی تحویل میں موجود کتنے لوگ مارے جا چکے ہیں، کتنے زندہ ہیں۔

تل ابیب کے رہائشی یائل لیویل نے کہا کہ اسرائیلی کارروائیوں کے بارے میں پڑھ کر "سپورٹ" کی پیشکش ہوئی کیونکہ "ہم سب شدید خوف میں زندگی گزار رہے ہیں"۔

50 سالہ سماجی کارکن نے اے ایف پی کو بتایا، "ہم اپنے محافظ کو کمزور کرنے کےمتحمل نہیں ہو سکتے.ہمارا وجود ہی داؤ پر لگا ہوا ہے۔"

- مواصلاتی بلیک آؤٹ -
حماس نے تصدیق کی ہے کہ غزہ میں تمام انٹرنیٹ کنیکشن اور مواصلات منقطع کر دیے گئے ہیں۔

غزہ میں اے ایف پی کے صحافیوں نے تصدیق کی کہ وہ صرف محدود علاقوں میں (فون پر) بات چیت کرنے کے قابل تھے جہاں وہ سرحد کے پار اسرائیلی نیٹ ورکس کے زریعہ سے رابطہ کر سکتے تھے۔

فلسطینی ہلال احمر نے کہا کہ فون کی بندش نے ایمبولینس سروس کو متاثر کیا ہے۔

فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے کوآرڈینیٹر، لین ہیسٹنگز نے X پر کہا کہ "اسپتال اور انسانی بنیادوں پر کام مواصلات کے بغیر جاری نہیں رہ سکتے"۔

بمباری اور ایندھن کی قلت کے درمیان غزہ کے 35 ہسپتالوں میں سے 12 کو  کام بند کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی، UNRWA نے کہا کہ اسے اپنی کارروائیوں میں نمایاں کمی کرنا پڑی ہے۔

ایلون مسک کا غزہ میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہمی کا اعلان

اسرائیلی فوج کی   غزہ پر  شدید بمباری سے مواصلاتی نظام مکمل تباہ ہوگیا ہے جس کے باعث  امدادی سرگرمیاں بھی معطل ہوگئی ہیں، ایسے میں ایلون مسک نے سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ فراہم کرنے والی اپنی کمپنی اسٹارلنک کے ذریعے غزہ میں انٹرنیٹ فراہم کرنےکا اعلان کیا ہے۔

ایلون مسک کا یہ بیان ایک امریکی خاتون رکن کانگریس الیگزینڈرا کارٹیز کی ایکس پر کی گئی پوسٹ پر آیا۔

اس سے قبل برطانیہ میں فلسطین کے سفیر حسام زملط نے ایکس پر پوسٹ میں بتایا تھا کہ 'میں غزہ میں موجود اپنے خاندان سےکئی گھنٹے سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن کامیابی نہیں مل رہی، تمام مواصلات اور انٹرنیٹ منقطع ہے، اسرائیل کی جانب سے حملے جاری ہیں اور   غزہ کو ہوا، زمین اور سمندری راستے سے تباہ کیا جا رہا ہے، عالمی برادری کی جانب سے اور کتنے معصوم  بچوں، والدین اور بزرگوں کے قتل کے بعد کوئی اقدام کیا جائےگا؟

حسام زملط کی پوسٹ ری پوسٹ کرتے ہوئے امریکی خاتون رکن کانگریس الیگزینڈرا کارٹیز کا کہنا تھا کہ 22 لاکھ کی آبادی کا مواصلاتی  رابطہ منقطع کرنا ناقابل قبول ہے، صحافی، طبی عملہ، انسانی حقوق کے کارکن  اور  معصوم لوگ سب متاثر ہوں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتا کہ اس قسم کے عمل کا کس طرح دفاع کیا جاسکتا ہے، امریکا نے ہمیشہ اس کی مذمت کی ہے۔

جواب میں ایلون مسک نے ری پوسٹ کرتے ہوئےکہا کہ 'اسٹار لنک عالمی سطح پر منظور شدہ امدادی تنظیموں کو انٹرنیٹ کی فراہمی میں مدد کرے گی'۔ 
خیال رہےکہ فلسطینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کا کہنا ہےکہ اسرائیلی بمباری  سے آخری بچنے والی انٹرنیشنل کیبل بھی تباہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے غزہ کا رابطہ دنیا سےکٹ گیا ہے، غزہ میں انٹرنیٹ اور فون سروس منقطع ہونے کے باعث امدادی سرگرمیاں  بھی معطل ہوگئی ہیں۔

- 'یہ پاگل پن بند کرو' - استنبول میں احتجاج سے صدر اردوان کا خطاب

ہفتے کے روز استنبول میں کئی لاکھ حامیوں کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ " غزہ میں ہونے والے قتل عام کے پیچھے اصل مجرم مغرب ہے۔"

اردوان نے اس سے قبل X پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ "اسرائیل کو فوری طور پر اس پاگل پن کو روکنا چاہیے اور اپنے حملوں کو ختم کرنا چاہیے"۔

فوری جنگ بندی کا مطالبہ

 اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے "فوری انسانی جنگ بندی" کے مطالبے کے بعد یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے غزہ میں امداد کی اجازت دینے کے لئے "دشمنی کو روکنے" کا مطالبہ کیا۔

جمعہ کے روز غیر پابند قرار داد کو زبردست حمایت حاصل ہوئی لیکن اسرائیل اور امریکہ نے حماس کا ذکر نہ کرنے پر اس پر تنقید کی۔

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ وہ غزہ پر اسرائیل کی بمباری میں "بے مثال اضافے" پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور "فوری" جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل کی بمباری سے غزہ کے اندر 1.4 ملین سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جب کہ گنجان آباد علاقے کو خوراک، پانی اور بجلی کی سپلائی تقریباً مکمل طور پر منقطع کر دی گئی ہے۔

21 اکتوبر کو امداد کی پہلی قسط کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اقوام متحدہ کے مطابق، مجموعی طور پر صرف 84  ٹرکوں نے سرحد کو عبور کیا ہے،  تنازع سے پہلے روزانہ اوسطاً 500 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کے مطابق، 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی تشدد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس میں 100 سے زائد فلسطینی ہلاک اور 2000 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔