ملک اشرف:ایف آئی اے انکوائری اور انویسٹی گیشن کیخلاف جسٹس آف پیس پہلا عدالتی فورم قرار،لاہور ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کیخلاف شکایات سے متعلق نیا اصول طے کر دیا
لاہور ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کیخلاف شکایات سے متعلق نیا اصول طے کر دیا. لاہورہائیکورٹ کےجسٹس علی ضیاء باجوہ نے نیشنل بینک کی ایف آئی اے کیخلاف درخواست مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے 9 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے کوعدالتی نظیر بھی قرار دیا گیا ہے۔ یہ ثابت ہو چکا کہ نیشنل بینک کے پاس داد رسی کا پہلا فورم سیشن عدالت ہے، جسٹس علی ضیاء باجوہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ہائیکورٹ ہمیشہ ایسے کیسز میں غیر معمولی دائرہ اختیار استعمال کرنے سے گریز کرتی ہے،ہائیکورٹ میں لاپرواہی سے دائر ہونے والی ایسی درخواستوں کا قانونی سدباب لازم ہو چکا ہے، ہائیکورٹ میں زیر التواء ایسی درخواستوں کا ایک بوجھ پڑا ہوا ہے۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے فیصلے میں تحریر کیاکہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22 اے میں ترمیم ہائیکورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد کم کرنے کیلئے کی گئی تھی، ایڈیشنل سیشن ججز کو ہائیکورٹ کے اختیار دینے کا مقصد زیر التواء مقدمات کی تعداد کم کرناتھا،جب کسی کیس میں سماعت کے دائرہ اختیار کا نکتہ طے ہو جائے تو عدالتوں کو اس کے میرٹ پر کوئی رائے نہیں دینی چاہئے، ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22 اے کی ضمنی دفعہ 6 میں پولیس حکام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،ایف آئی اے حکام بھی پولیس کی تعریف میں شامل ہوتے ہیں، قانون میں پولیس اور ایف آئی اے کی حیثیت، افعال، حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں ایک جیسی ہیں، پیشہ وارانہ ذمہ داری،اختیار سے تجاوز کرنیوالے ایف آئی اے حکام کیخلاف پہلی داد رسی کے طور پر جسٹس آف پیس سے رجوع کیا جائے، پولیس حکام سے متعلق ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22 اے (6) کافی وسیع، ایف آئی اے حکام کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
نیشنل بینک کے جڑانوالہ کارپوریٹ ہیڈ خادم حسین نے اپنے کیخلاف اربوں روپے فراڈ اور منی لانڈرنگ انکوائری کا اقدام چیلنج کیا تھا، درخواستگزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ایف آئی اے نے مختلف رائس ملز کو قرض دینے کے الزام میں بے بنیاد انکوائری شروع کی ہے،انکوائری شروع کرنے سے قبل عدالت سے قانونی اجازت بھی نہیں لی گئی،انکوائری میں بسم اللہ رائس ملز، سلہری رائس ملز اور دیگر ملز کو غیر قانونی قرضہ دینے کا الزام لگایا گیاہے،خادم حسین نے قانونی طور پر رائس ملز کو قرضہ دیا،درخواست گزار کی جانب سے استدعا کی گئی کہ ایف آئی اے کو منی لانڈرنگ کی انکوائری کرنے سے روکا جائے، عدالتی اجازت کے بغیر ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے ایف آئی اے کو ہراساں سے بھی روکا جائے۔