پنجاب کا چار ماہ کا نیا بجٹ تیار، پیر کے روز پیش ہو گا

Punjab Interin Budget, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

دُرِ نایاب:  پنجاب کی نگراں حکومت صوبہ کا آئندہ چار ماہ کا بجٹ پیر کے روز نگراں کابینہ میں پیش کرے گی۔

نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے  جمعہ کے روز صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد پنجاب کا اگلے چار ماہ کا بجٹ پیر کے روز پیش کیا جائے گا۔ محسن نقوی نے بتایا کہ  جون میں ہم نے 4 ماہ کا بجٹ پیش کیا تھا جو کہ استعمال ہوچکا ہے۔ اب مزید چار ماہ کے لئے بجٹ پیر کے روز پیش کریں گے۔

واضح رہے کہ پنجاب کی نگراں صوبائی حکومت  نے 19 جون کو چار ماہ کا بجٹ پیش کیا تھا۔ اس بجٹ میں یکم جولائی سے 31 اکتوبر تک اخراجات اور آمدن کے گوشوارے شامل تھے۔ اب گزشتہ دو ہفتوں سے نگراں حکومت آئندہ چار ماہ کے لئے بجٹ کی تیاری کر رہی تھی جسے محسن نقوی کی کڑی نگرانی مین مکمل کیا جا چکا ہے۔ 

پنجاب کے چار ماہ کے بجٹ کے خدوخال

ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب کے آئندہ چار ماہ کے بجٹ میں تنخواہوں، پینشن اور ٹیکسوں کی مد مین کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی۔ 

آئندہ چار ماہ کے لئے ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ تقریباً 300 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ ان میں سے 80 فیصد کے لگ بھگ رقوم اس وقت جاری ترقیاتی منصوبوں پر ہی خرچ کی جائیں گی۔ کچھ رقوم گزشتہ چار ماہ کے دوران طے کئے گئے نئے ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جائیں گی۔

گزشتہ چار ماہ کا بجٹ

انیس جون 2023 کو نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کی حکومت نے پنجاب کا 4 ماہ کیلئے 1719 ارب روپے کا جو بجٹ منظور کیا تھا اس کا حجم 1719 ارب روپے تھا۔ اس بجٹ میں صوبائی حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔ 
انفارمیشن ٹیکنالوجی بزنسز پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا تھا اور کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا تھا، 

صوبائی اسمبلی موجود نہ ہونے کے سبب نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بجٹ کی منظوری دی گئی تھی۔

کابینہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اور پینشن میں 5 فیصد اضافے جبکہ 80 سال سے زائد عمر کے پینشنرز کی پنشن میں 20 فیصد اضافے کی منظوری دی تھی۔

آئینی پابندی کی وجہ سے نگراں حکومت صرف چار ماہ کا بجٹ بنا سکتی تھی اس لئے اس بجٹ میں جاری اخراجات میں 4 ماہ کے لیے 721 ارب روپے ، پنشن کے لیے 116 ارب روپے، ترقیاتی منصوبوں کے لیے 325 ارب روپے، کیپیٹل اخراجات کے لیے 277 ارب اور اکاؤنٹ فوڈ میں 395 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

 آمدن کے حصول کے لیے 579 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ صوبائی محاصل میں 393 ارب اور نان ٹیکس میں 186 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ سیلز ٹیکس میں 240 ارب، نیٹ ہائیڈل پرافٹ میں 30 ارب کا تخمینہ تھا۔

وزیر صنعت و تجارت و توانائی ایس ایم تنویر نےبجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ  پنجاب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق بزنسز پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا، اسٹامپ ڈیوٹی پر ٹیکس ایک فیصد رکھا گیا، 65 ارب روپے زراعت کے لئے رکھے گئے، صحت و تعلیم کے بجٹ میں 31 فیصد اضافہ کیا گیا۔

نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے بجٹ کی منظوری کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی نگران کابینہ کے آرٹیکل 126 کے تحت چار ماہ کے آمدن اور اخراجات کی منظوری دے دی ہے، کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، صوبہ پنجاب 194 ارب روپے اپنے طور پر اکٹھے کرے گا ، پنجاب میں 1 ارب روپے سے جرنلسٹ انڈومنٹ فنڈ قائم کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا  تھا کہ گندم کی ادائیگیوں پر 600 ارب روپے کا قرض اتارنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس قرض پر روزانہ 25 کروڑ روپے سود ادا کر رہے تھے، جس کی وجہ سے 600 ارب روپے کا قرضہ ادا کرنا تھا، اگر یہ قرضہ ادا نا کرتے تو یہ اس سال کے آخر میں 1100 ارب روپے ہو جانا تھا ، کابینہ کی منظوری سے 600 ارب روپے کا قرض اتارنے کا سلسلہ شروع کیا گیا، جو چار ماہ میں اتار دیا جائے گا۔