(ویب ڈیسک)پاک آرمی کی جانب سے ان کی قیادت کے بارے میں غلط زبان استعمال کرنے پر معاملہ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایمان مزاری کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے ریاست اور مدعی مقدمہ کو 9 جون کے لیے نوٹس جاری کیا اور ان سے جواب طلب کیا۔
پاک آرمی کی جانب سے ان کی قیادت کے بارے میں غلط زبان استعمال کرنے پر ایمان مزاری کے خلاف جج ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے درخواست پر مقدمہ درج کیاگیا۔21 مئی کی شام پانچ سے چھ بجے شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے پاک فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف سرعام من گھڑت، بے بنیاد الزامات لگائے۔
ملک کے انصاف کے نظام کے لیے یہ تاریخی موقع ہے کہ اس مقدمہ کا سو فیصد میرٹ پر فیصلہ ہو,عدالت سے استدعا کی گئی کہ خاتون ہونے، معصوم ہونے کو جواز نہیں ملنا چاہیے۔
ایمان مزاری کے خلاف جج ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا، مقدمہ 505/138 کی دفعات کے تحت اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں درج کیا گیا۔آرمی قیادت کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔جان بوجھ کر دیے گئے ریمارکس کا مقصد فوج کے رینکس اینڈ فائل میں اشتعال دلانا تھا۔یہ اقدام پاک فوج کے اندر نفرت پیدا کرنے کا باعث بن سکتا تھا جو ایک سنگین جرم ہے۔یہ بیان دینا پاک فوج کے افسروں، جوانوں کو حکم عدولی پر اکسانے کے مترادف ہے۔
پاک فوج اور سربراہ کی کردار کشی سے عوام میں خوف پیدا کرنا ریاست کے خلاف جرم ہے۔فوج کی جانب سے قانونی راستہ اپنائے جانے کے بعد انصاف کے نظام کا امتحان شروع ہوگیا ہے،قانون اور آئین پاکستان فوج کو ایسی کردار کشی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔کیا پاکستان کا میڈیا اور سول سوسائٹی انصاف دلانے کے لیے اسی طرح آواز اٹھائے گی جیسے دیگر کے لیے اٹھائی جاتی؟
آج فوج نے انصاف لینے کے لیے قانون و انصاف کا راستہ اپنایا،انصاف ملنے سے ادارے کی جانب سے ہر معاملے میں قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کی روایت جنم لے گی۔
اپنے ایک بیان میں ایمان مزاری نے کہا کہ وہ ابھی فوج کی طرف سے درج مقدمے سے متعلق قانونی حکمت عملی پر مشاورت کر رہی ہیں اور اس حوالے سے جلد قانونی راستہ اختیار کریں گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایمان مزاری کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے ریاست اور مدعی مقدمہ کو 9 جون کے لیے نوٹس جاری کیا اور ان سے جواب طلب کیا۔