ویب ڈیسک: وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور فوجی قیادت میں کوئی اختلاف نہیں اور ملک کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک ہی صفحے پر ہوں۔
برطانوی میڈیا کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا اپوزیشن تو چاہتی ہے کہ عمران خان اور فوجی قیادت کے درمیان تعلقات خراب ہوں مگر نہ اسٹیبلشمنٹ بھولی ہے نہ عمران خان بھولا ہے۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں مزید تنزلی کے حوالے سےبات کرتے ہوئے شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ وزیراعظم کرپشن اور احتساب کے معاملے پر ڈٹے ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ احتساب عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ تھا مگر اس میں ہمیں وہ کامیابی نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی۔‘
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بتایا کہ دیگر ممالک خاص طور پر برطانیہ میں مقیم ان ملزمان اور مجرموں کو واپس لانے کے لیے معاہدے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی سے متعلق انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ واپس آ جائیں۔ ’ہم ساڑھے تین سال سے اسی کام پر لگے ہیں۔ (انھیں) ہم نے خود بھیجا، ہماری ہی غلطی ہے۔ وہ سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو گئے اور باہر چلے گئے۔
شہزاد اکبر سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ ان کے استعفی کی وجہ محض نواز شریف یا شہباز شریف کو واپس لانا ہی نہیں بلکہ ’ہم پیسے بھی تو واپس نہیں لا سکے۔’اربوں کی کرپشن ہوئی۔ ایک ایک ملازم کے اکاونٹ سے چار چار ارب روپے برآمد ہو رہے ہیں۔ صرف شہباز شریف پر 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے لیکن ہم ان کے پیسے بھی نہیں لا سکے۔
شیخ رشید احمد نے تصدیق کی کہ ملک کے مختلف حصوں، خصوصاً بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں میں دہشتگرد تنظیموں کے سلیپرز سیلز ایک بار پھر سرگرم ہوئے ہیں وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ آئندہ دو ماہ تک ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے تاہم دہشتگردی کی اس تازہ لہر پر قابو پا لیا جائے گا۔وزیر داخلہ نے کہا کہ جوہر ٹاون دھماکے میں وزارت داخلہ کے پاس انڈین خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ثبوت ہیں۔
شیخ رشید کے مطابق انھیں بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی پر زور نہیں چلتا۔
انہوں نے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ اس وقت مذاکرات نہیں ہو رہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’سیز فائر کی خلاف ورزی کے بعد مذاکرات کا دروازہ تقریباً بند ہو چکا ہے۔ مذاکرات کی شرائط ایسی تھیں جو پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔