سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے سانحہ ساہیوال تک

سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے سانحہ ساہیوال تک
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

( قیصر کھوکھر) سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے لے کر اب تک سانحہ ساہیوال جیسے کئی واقعات ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اس پر کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ماسوائے افسران کے تبادلے اور چند افسران کو اِدھر سے اُدھرکرنے کے۔ امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوا تو ایک بھی سپاہی کو معطل نہیں کیا گیا بلکہ ریسرچ اینڈ دویلپمنٹ پر کام ہوا اور اس طرح کے واقعات کو مستقبل میں روکنے کے لئے کام کیا گیا اور ایک نیا سسٹم کھڑا کیا گیا تاکہ خامیوں کو دور کیا جا سکے۔ ان خامیوں کو دور کر کے ایک فول پروف سسٹم بنایا گیا جس میں سکیورٹی کی تمام خامیوں کا سد باب کیاگیاہے۔ پاکستانی پولیس ایک بے لگام گھوڑا بن چکی ہے، وہ جو چاہتی ہے کرتی ہے۔ پولیس نظام میں بہتری لانے اور تھانہ کلچر کی تبدیلی کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔

ہر حکومت آتی ہے اور نعرے لگاتی ہے کہ وہ تھانہ کلچر تبدیل کر رہی ہے لیکن عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ سڑک پر جاتے کسی کو قتل کرنے کا پولیس کو کس نے اختیار دیا ہے؟ ایلیٹ پولیس اورسی ٹی ڈی کو بہترین تربیت دی گئی ہے ۔انہیں گاڑی کا ٹائر برسٹ کرنے کے بعد ملزمان کو زندہ گرفتار کرنا چاہئے تھا ،نہ کہ نہتے افراد کو اس طرح سڑک پر قتل کرنا چاہئے تھا ۔ امریکہ کے وائٹ ہاﺅس میںاگر کوئی حملہ آور گھس آئے تو اس کی ٹانگ میں گولی مار کر اسے زندہ گرفتار کیا جاتا ہے، تاکہ اس کا نیٹ ورک پکڑا جا سکے لیکن سانحہ ساہیوال کا کچھ عجب واقعہ ہوا ہے کہ اچانک سب بے گناہوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا ۔ اس سارے واقعے میں ایڈیشنل آئی جی اظہر حمید کھوکھر کو بغیر کسی وجہ کے تبدیل کر دیا گیا ہے ۔

 یہ ایک عجب منطق ہے کہ سی ٹی ڈی کے سربراہ رائے محمد طاہر کو محض او ایس ڈی بنایاگیا ہے لیکن اس آپریشن سے تعلق نہ رکھنے والے ایڈیشنل آئی جی اظہر حمید کھوکھر کو نا کردہ گناہ پر پنجاب سے سرنڈر کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اظہر حمید کھوکھر نے اس واقعہ کی بروقت آئی جی پولیس کو اطلاع کر دی تھی اور اس کا فالو اَپ بھی لیا تھا۔ اب اس واقعہ کو بھی ماڈل ٹاﺅن سانحہ کی طرح خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ سانحہ ماڈل ٹاون میں 14افرادکوموت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ ان کی بھی ایف آئی آردرج نہ کی گئی جبکہ آرمی چیف کی مداخلت پر مقدمہ درج ہوا، سانحہ ماڈل ٹاون کیس میںبھی 2ایف آئی آرز درج ہوئیں، ایک پولیس کی مدعیت میں جبکہ دوسری متاثرین کی جانب سے درج کی گئی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے لواحقین تاحال انصاف کیلئے دربدر ہیں مگر انہیں انصاف نہیں ملا۔ یہی کچھ خدانہ کرے سانحہ ساہیوال کے متاثرین کیساتھ بھی ہوتا دکھائی دے رہاہے۔

  سانحہ ساہیوال کی بھی 2ایف آئی آرزدرج کی گئی ہیں۔ ایک سی ٹی ڈی کی جانب سے جبکہ دوسری لواحقین کی جانب سے،اب دیکھنا یہ ہے کہ انصاف کی بیل کیسے منڈھے چڑھتی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے صوبے میں 100 ماڈل تھانے بنانے کاا علان کیا ہے یہ اعلان میاں شہباز شریف نے بھی کیا تھا لیکن سب بے سود رہا۔ اب پنجاب پولیس کو کے پی کے پولیس بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ کے پی کے میں سیاستدان پولیس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرتے جبکہ پنجاب میں مخالفین پر جھوٹے مقدمات درج کرائے جاتے ہیں۔ اب فرانزک سائنس ایجنسی نے خط لکھا ہے کہ موقع سے تمام شواہد ضائع کر دیئے گئے ہیں اور بچے کھچے شواہد بھی فرانزک سائنس ایجنسی کو بھی فراہم نہیں کئے جا رہے ۔صرف گولیوں کے خول دےکرتفتیش کی رپورٹ مانگی جارہی ہے۔فرانزک لیب کے حکام کا کہنا ہے کہ جن بندوقوں سے یہ گولیاں چلی ہیں وہ بھی فراہم کی جائیں جبکہ صرف خول سے کیسے تحقیقات آگے بڑھائیں جبکہ واقعہ کے دیگر شواہد بھی فراہم نہیں کئے جارہے۔

ہر واقعہ کے بعد افسران کو تبدیل کرنا ایک غلط روش ہے، اس روش کو تبدیل کرنا چاہیے اگر کوئی پولیس والا قاتل بن جاتا ہے تو اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہونا چاہئے اور افسران کو بھی اپنے ماتحتوں کا دفاع نہیں کرنا چاہئے تاکہ یہ ماتحت اہلکار اپنے افسران کے سہارے عوام کو تنگ نہ کریں۔ پولیس میں فوری طور پر ایک انٹرنل احتساب سسٹم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پولیس افسران کے خلاف ملنے والی شکایات کا بروقت ازالہ کیا جائے ۔ ٹرانسفر ہونے والے پولیس افسران کو تو دوبارہ تقرریاں مل جائیں گی لیکن ان بچوں کا کیا بنے گا جن کے سرسے باپ اور ماں کا سایہ پولیس کے قاتلوں نے چھین لیا ہے۔اب لواحقین کی دادرسی کی بجائے انہیں رسوا کیا جارہاہے۔ خلیل کے لواحقین کوپولیس یہ کہہ کر اسلام آبادلے گئی کہ صدرمملکت عارف علوی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ان سے ملاقات کرنی ہے۔

 لواحقین جب اسلام آباد پہنچے توصدرمملکت کراچی اور چیئرمین سینیٹ بلوچستان روانہ ہوگئے جس پر لواحقین اسلام آباد کی سڑکوں پر دھکے کھاکرواپس لاہور آگئے۔ میڈیا میں خبریں آنے پر چیئرمین سینیٹ اور صدر مملکت کے ترجمانوں نے وضاحت کی کہ دونوں حکام نے لواحقین کو ملاقات کیلئے نہیں بلایاتھا۔ یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ اگر صدرمملکت اور چیئرمین سینیٹ نے لواحقین کوملاقات کیلئے نہیں بلوایاتھا تو پولیس انہیں کس کے ایماءپر اسلام آباد لے گئی۔ سسٹم میں بہت سی خرابیاں ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو ایسے محسوس ہوتاہے کہ حکومت کے خلاف مبینہ طور پرسازشیں ہورہی ہیں۔ حکومت کو ان سازشوں پر نظر رکھنا ہوگی اور سسٹم کی تبدیلی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر موثراقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ سسٹم کی یہ خرابیاں دور ہوگئیں تو پولیس بھی ٹھیک ہو جائے گی اور بے گناہوں کاقتل عام بھی رک جائے گا۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر