کرفیو لگے یا سیلاب وغیرہ کی صورت میں کیا انتخابات کی تاریخ بڑھ سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کا بیرسٹر علی ظفر سے استفسار

 کرفیو لگے یا سیلاب وغیرہ کی صورت میں کیا انتخابات کی تاریخ بڑھ سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کا بیرسٹر علی ظفر سے استفسار
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ علی ظفر صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں "جی بالکل"،کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں، کیا اگر کرفیو لگے یا سیلاب وغیرہ آجائے تو انتخابات کی تاریخ بڑھ سکتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ازخودنوٹس کیس کی وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے سماعت کی ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا گورنر اسمبلی تحلیل کرنے سے انکار کر سکتا ہے،وکیل علی ظفر نے کہاکہ میرے خیال میں گورنر کے پاس اختیار نہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت واپس بھیجے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟

 جسٹس منیب اختر نے کہاکہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے،اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں، گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ گورنر کی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی اڑتالیس گھنٹے کا وقت جاری رہے گا،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48 گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہوگا؟بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کیلئے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آرٹیکل 112 میں دو صورتیں ہیں گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں دیتا،جبکہ آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ایک کے مطابق گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ تحلیل کرے یا نہیں،اب بتائیں کہ کیا گورنر کی صوابدید ہے یا ان کا کردار مکینیکل ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ علی ظفر صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں "جی بالکل"،کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں، کیا اگر کرفیو لگے یا سیلاب وغیرہ آجائے تو انتخابات کی تاریخ بڑھ سکتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن مخصوص حلقوں میں انتخابات کا وقت بڑھا سکتا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ 90 روز میں انتخابات کروانا لازمی ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ملک میں جو بھی حالات ہیں کیا اس کے باوجود الیکشن 90 روز میں ہوگا ،انتخابات کی تاریخ گورنر دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں،ملک میں جنگ ہو یا کرفیو لگ جائے تو انتخابات کیسے ہونگے؟۔

وکیل علی ظفر نے کہاکہ قانون میں سیلاب اور قدرتی آفات کا ذکر ہے جنگ کا نہیں،جنگ کا قانون میں کہیں ذکر نہیں اس کیلئے ایمرجنسی ہی لگائی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ کو کہا ہے کہ عملہ دیں انہوں نے نہیں دیا،الیکشن کمیشن نے بجٹ بھی مانگا اس کا مطلب یہی کہ انتخابات کی تیاری ہو رہی تھی،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیاکہ کیا الیکشن کمیشن کا انتخابی پروگرام 90 دن سے اوپر ہو سکتا ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن میں انتخابات کرانے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ اسمبلیوں کی تحلیل الیکشن ایکٹ کے اندر نہیں آتی،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کا ذکر الیکشن ایکٹ میں ہی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آئین گورنر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ آئین کے تحت صدر مملکت کو غیر جانبدار اور آزاد ہونا چاہئے۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ گورنر کے پی نے اسمبلی تحلیل کی ان کو انتخابات کی تاریخ بھی دینا تھی، جب گورنر نے تاریخ نہیں دی تو صدر کے پاس ڈیفالٹ پاور موجود ہے،آئین خود کہتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے،پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیا،1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے،اسمبلی نے ترمیم کرکے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا،پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر صدر اور گورنر دونوں ہی تاریخ دے دیں تو کس کا عمل درست ہوگا؟وکیل علی ظفر نے کہاکہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہو تو گورنر کی تاریخ درست ہوگی،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ گورنر اسمبلی تحلیل کرکے تاریخ نہ دے تو عدالت حکم دے سکتی ہے،انتخابات کی تاریخ دینا آئینی ذمہ داری ہے،بعض حالات میں ذمہ داری گورنر اور بعض میں صدر کی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ صدر اور گورنر کس طریقہ کار کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرتے ہیں؟قانون کے مطابق صدر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنا ہوتی ہے،یہ اہم معاملہ ہے کہ دیکھا جائے صدر الیکشن کمیشن سے کیا مشاورت کرتے ہیں،ہم جاننا یہ چاہتے ہیں کہ صدر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت کس چیز پر ہوتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن انتخابات کیلئے تیار ہو اور پیسے نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا،بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو سہولیات فراہم کرنے حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ حیرانگی ہے پورے ملک میں کرکٹ میچز کیلئے پیسے ہیں انتخابات کیلئے نہیں۔

 بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں انتخابات کی تیاری کا بتا چکا ہے،جسٹس محمد مظہر نے کہاکہ تیاری تو تب ہو گی جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گا،جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہاں صرف تاریخ کی بات ہو رہی ہے ابھی تو صرف رشتہ ہوا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے،گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے؟بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیار ہونا چاہئے۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آئین کو بالکل واضح ہونا چاہئے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں،پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟وکیل علی ظفر نے کہاکہ اگر گورنر غیر حقیقی تاریخ دے تو الیکشن کمیشن عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو کاغذات نامزدگی سمیت تمام مراحل کیلئے 52 دن درکار ہیں،الیکشن کمیشن نے اسی بنیاد پر ہی گورنر کو تاریخیں تجویز کی تھیں، 

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کے دن ہی تاریخ دینا ہوتی ہے؟کیا الیکشن کمیشن گورنر کی دی گئی تاریخ سے آگے پیچھے انتخابات کرا سکتا ہے؟وکیل علی ظفر نے کہاکہ انتخابات کو ہر صورت وقت پر ہونا ہوتا ہے، ترکی میں اتنا بڑا زلزلہ آیا اور ان کے صدر اردگان نے انتخابات کا پھر بھی اعلان کیا،پہلے انتخابات کی تاریخ دینا لازمی ہے،انتحابات کی تاریخ کے بعد دیکھا جاسکتا ہے کہ حالات کے مطابق وقت بڑھے گا یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت آرٹیکل 254 کو بھی مدنظر رکھے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آرٹیکل 254 کا اطلاق تب ہوگا جب کوئی کام تاخیر سے کیا گیا ہو،پہلے کام کرنے کی نیت تو کریں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ صدر کی جانب سے دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں، 

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ فاروق نائیک صاحب دلائل دیں گے؟ عابد زبیری اور شعیب شاہین کو سنیں گے، ہم کسی نہ کسی نکتے پر پہنچ رہے ہیں،جہاں آئین خاموش ہے وہاں قانون بولتا ہے۔

صدر مملکت کے سیکرٹری عدالت کے رو برو پیش ہوئے، سیکرٹری ٹو صدر نے کہاکہ صدر مملکت نے سلمان اکرم راجہ کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے، صدر مملکت کا کہنا ہے اٹارنی جنرل اپنا موقف دے چکے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اگر گورنر نے تاریخ دینی ہے تو وہ کسی سے مشورہ کریگا، گورنر الیکشن کی تاریخ کیلئے الیکشن کمیشن سے مشورہ کریگا، 90 دن کب ختم ہورہے ہیں ۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ 13 اپریل کو 90 دن ختم ہورہے ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ الیکشن کمیشن 90 دن سے پہلے کا شیڈول بھی دے سکتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا تاریخ دینے کے بعد کسی صورتحال میں بھی الیکشن تاریخ تبدیل ہوسکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ 2008 میں انتخابات کی تاریخ آگے کی گئی تھی،جسٹس منیب اختر نے کہاوہ تو قومی سانحہ تھا، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہم کل کیس ختم کرنا چاہتے ہیں،تمام فریقین کے وکلا مختصر دلائل دیں،معاون وکیل نے کہاکہ صدر مملکت کی طرف سے سلمان اکرم راجہ پیش ہونگے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل ساڑھے نو بجے کیس کی سماعت کا آغاز کریں گے۔

Bilal Arshad

Content Writer