جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا۔۔ وہ شان سلامت رہتی ہے

 جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا۔۔ وہ شان سلامت رہتی ہے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک : جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا۔۔ وہ شان سلامت رہتی ہے ۔۔ بینظیر کو بچھڑے 14 برس بیت گئے,محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا شرف حاصل ہے اور یہ مقام انہوں نے سیاسی تدبر، جہدِ مسلسل اور عظیم قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت حاصل کیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا شرف حاصل ہے اور یہ مقام انہوں نے سیاسی تدبر، جہدِ مسلسل اور عظیم قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت حاصل کیا۔ عوام، جمہوریت، انسانی حقوق، دفاعِ وطن اور آئینِ پاکستان کے لئے ان کی خدمات پر جب بھی کوئی مفکر ، صحافی اور دانشور قلم اٹھائے گا تو وہ سیاسی، آئینی، دفاعی، معاشرتی اور معاشی میدان میں محترمہ کی خدمات کو سنہری حروف میں درج کرے گا۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی قیادت میں جمہوری جدوجہد کی ، ان کے قافلے کے دیگر قائدین کے شانہ بشانہ کام کیا اور سر زمین پاکستان کے عوام کی سربلندی اور حقوق کیلئے آواز بلند کی۔ 

21جون 1953 کو کراچی میں پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے آنگن میں آنکھ کھولنے والی پنکی ملک سیاست کا ایک درخشاں ستارہ بنی۔

صرف نام ہی ان کے کام بھی بے نظیر تھے ۔ جوانی میں قدم رکھا تواعلیٰ تعلیم کےلئے برطانیہ اور امریکہ  کا انتخاب کیا۔ تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ سیاسی میدان میں  بھی کمال کردکھایا، بھٹو کی قید سے لیکر پھانسی تک، آمریت کے دور میں بینظیربھٹو نے ہرمصیبت اور مشکل  کا ثابت قدمی اوردلیری سے مقابلہ کیا۔

1986 میں بینظیر بھٹو جلاوطنی کاٹ کرواپس وطن لوٹیں تو پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بن کر سیاست میں باقاعدہ قدم رکھا۔ 1987ءمیں آصف علی زرداری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں، بینظیر بھٹو 1988ءمیں پاکستان اورعالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں، تاہم ان کی حکومت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکی اور 20 ماہ بعد ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔

1993ءمیں ایک بار پھر حکومت ملی لیکن 3 برس بعد 1996 میں انہیں اقتدار سے محروم کردیا گیا، انیس سو اٹھانوے میں بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطن ہوگئیں۔ کبھی لندن تو کبھی دبئی میں سکونت اختیار کی۔

18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو وطن واپس تشریف لائیں تو کراچی ایئرپورٹ پر لاکھوں کارکنوں نے ان کا تاریخی استقبال کیا، بینظیر بھٹو کو کراچی ایئرپورٹ سے قافلے کی  صورت میں لے جایا گیا۔اس دوران کارساز کے مقام پر ان کے قافلے پر خودکش حملہ  کیا گیا، اس حملے میں درجنوں کارکن لقمہ اجل بنے، تاہم بینظیر بھٹو محفوظ رہیں۔

27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپس روانہ ہوئیں۔ کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے جونہی گاڑی سے سر باہر نکالا، قاتل نے گولی چلا دی، یوں دختر مشرق ہمیشہ کےلیے ابدی نیند سو گئیں۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا۔۔وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے ۔۔ اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

گر بازی عشق کی بازی ہے۔۔ جو چاہو لگا دو ،ڈر کیسا

گرجیت گئے تو کیا کہنا۔۔ ہارے بھی تو بازی مات نہیں