( علی ساہی ) آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی طرف سے سانحہ پی آئی سی واقعہ کی انکوائری کیلئے تین رکنی کمیٹی قائم، کمیٹی واقعہ کی غیرجانبدانہ انکوائری کرکے ذمہ داران کے خلاف سفارشات تیار کرپائے گی یا سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال کی طرح چھوٹے افسران کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جائے گا۔
آئی جی پنجاب شعیب دستگیر نے ایڈیشنل آئی جی اظہر حمید کھوکھر کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی نے سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشنز سمیت موقع پر موجود تمام افسران کے بیانات قلمبند کرلیے ہیں اور اگلے تین سے چار روز میں انکوائری کرکے رپورٹ آئی جی کو پیش کریں گے۔ انکوائری کمیٹی کے لیے چیلنج ہے کہ آیا کمیٹی اعلی افسران کو بھی سزا کی سفارش کرے گی یا سانحہ ساہیوال اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح فرضی سزا دلوا کر دوبارہ ان کے عہدوں پر تعینات کردیا جائے گا۔
سانحہ ساہیوال میں حکومت دو ایڈیشنل آئی جیز، ایک ڈی آئی جی، ایک ایس ایس پی کو عہدوں سے ہٹا دیا جبکہ چھوٹے افسران کو گرفتار کرکے انکوائری کی گئی۔ ایک افسر کو تو چند روز بعد تعیناتی مل گئی جبکہ چھوٹے اہلکاروں کو لواحقین کی معافی کے بعد رہائی ملی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بھی چودہ ملزمان میں سے پی ایس پی افسران نے دیگر صوبوں یا محکموں میں پوسٹنگ کرالی جبکہ رینکرافسران کوابھی تک کسی بھی عہدے پرتعیناتی ہی نہیں ہوسکی۔
کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی اظہر حمید کھوکھر کو سانحہ ساہیوال میں معطل کردیا گیا تھا حالانکہ ان کا کسی صورت میں بھی سانحہ ساہیوال سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ پی آئی سی میں اصل ذمہ داران کو سزا دلوانے میں کامیاب ہونگے یا پھر دیگر پی ایس پی کمیونٹی کے پریشر میں آکر اصل ذمہ داران کی بجائے چھوٹے افسران کو رگڑا دیں گے۔