نیا الیکشن کمیشن، کارکنوں کی لسٹیں، انٹراپارٹی الیکشن، بانی کارکن اکبر ایس بابر تحریک انصاف کو بچانے کیلئے سرگرم

Akbar S Babar active, PTI Pioneer member Akbar S Babar, Intra Party Election in PTI, Intra Party Election, Election Symbol Bat
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

اویس کیانی: پاکستان تحریک انصاف کے بانی کارکن اور پارٹی میں عمران خان کی آمریت کے مخالف دھڑے کے رہنما اکبر ایس بابر پارٹی میں شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کروا کر پارٹی کو تادیبی کارروائی سے بچانے کا مقصد لے کر رابطہ کاری کیلئےسرگرم ہو گئے۔

دو دن میں انہوں نے دو نیوز چینلز پر انٹرویو دیئے اور سوشل پلیٹ فارمز ایکس اور فیس بل پر اپنے آفیشل اکاونٹ سے فالوورز سے اپیلیں کیں کہ وہ تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلا کو الیشکن کمیشن کی تادیبی کارروائی سے بچانے کے لئے فوری طور پر متحرک ہوں، 20 دن کی مہلت تمام ہونے سے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن کروائیں اور تحریک انصاف کو اس کے اصل مقاصد کے حصول کی طرف واپس لائیں۔ 

اکبر ایس بابر نے پارٹی کارکنوں کے نام پیغام میں کہا نظریاتی کارکن پارٹی میں شفاف انتخابات کے لئے آگے آئیں، کارکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکم کے مطابق اگلے 20 دنوں میں شفاف انٹرا پارٹی الیکشن کو یقینی بنانے کے لئے متحرک ہوں،شفاف انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہوئے تو قومی الیکشن میں بلے' کا نشان برقرار رہنا اور انتخابات میں حصہ لینا خطرے میں پڑ سکتا ہے، پی ٹی آئی کارکنوں کو پارٹی کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے آگے آنا ہوگا۔

اکبر بابر نے پی ٹی آئی کارکنوں سے مشاورت کیلئے ملک گیر رابطہ مہم کے آغاز کا بھی اعلان کر دیا۔

اکبر ایس بابر کون ہیں؟

اکبر ایس بابر پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے والے چند بانی کارکنوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے عمران خان کے ساتھ مل کر سالہا سال تک ایک صاف ستھری ساسی پارٹی کو بنانے کی جدوجہد کی جو پاکستان میں سٹیٹس کو کو توڑ کر عوام کی امنگوں اور ضرورتوں کے مطابق سیاست کر سکے۔ اکبر ایس بابر سالہا سال تک تحریک انصاف کے کلیدی عہدوں پر کام کرتے رہے اور پارٹی کو گراس روٹ پر استوار کرنے میں آگے آگے رہے۔ تحریک انصاف کی جن پالیسیوں کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ تقریباً سب کی سب اکبر ایس بابر کے سیاسی فہم اور عملی اپروچ کے امتزاج سے وجود میں آئیں۔

بابر کا عمران خان سے اختلاف اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے پارٹی میں غیر نظریاتی لوگوں کو کلیدی پوزیشنیں بانٹنے اور پارٹی کے اکاؤنٹس میں نامعلوم ذرائع سے بھاری فنڈز آنے اور ان فنڈز کے غیر اخلاقی طریقوں سے غیر اخلاقی کاموں پر خرچ ہونے پر  پارٹی کی اعلی ترین تنظیم میں اعتراضات اٹھانا شروع کئے۔ اکبر ایس بابر کی مسلسل کوشش کے نتیجہ میں عمران خان کو پارٹی کے اکاؤنٹس کا پہلی مرتبہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے آزادانہ سپیشل آڈٹ کروانا پڑا۔ اس سپیشل آڈٹ میں اکبر ایس بابر کے اعتراضات کی تصدیق ہوئی، غیر ممالک سے واقعی غیر قانونی فنڈنگ آ رہی تھی، یہ فنڈنگ بعض ان آتھورائزڈ اکاونٹس میں بھی آ رہی تھی اور ان اکاؤنٹس کے اصل مالک جو اس وقت تحریک انصاف کی اکاؤنٹس سیکشن میں ملازم تھے وہ ان فنڈز کی ہینڈلنگ کے عوض خود بھی کرپشن کر رہے تھے۔ اکبر ایس بابر کی کوشش کے باوجود عمران خان نے نہ غیر متعلقہ اکاؤنٹس کا استعمال بند کیا، نہ غیر ملکی فنڈنگ میں شفافیت لانے کی کوشش کی اور نہ ہی ان معاملات میں استعمال ہونے والے ملزاموں اور غیر متعقلہ افراد کو ان معاملات سے الگ کرنے کی کوشش کی البتہ انہوں نے اپنے دیرینہ دوست، بانی کارکن اور پارٹی کے نظریہ ساز اکبر ایس بابر کو ہی پارٹی کے اہم معاملات سے الگ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔

اس کنفلکٹ کا منطقی نتیج یہ نکلا کہ اکبر ایس بابر  تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ میں ممنوعہ غیر ملکی زرائع کی فنانسنگ، ممنوعہ اور غیر اعلان کردہ بینک اکاؤنٹس کے استعمال اور کرپشن کے معاملات الیشکن کمیشن میں لے گئے۔ ان کی درخواست کی الیکشن کمیشن میں سماعت نو سال تک جاری رہی اور یہ عملاً پاکستان کی تاریخ میں الیکشن کمیشن میں زیر غعر آنے والا سب سے بڑٓ کیس بن گئی۔ اس درخوااست کے نتیجہ میں طویل عدالتی عمل، سماعتوں اور آخر کار طویل سکروٹنی کے بعد تحریک انصاف کے درجنوں ایسے بینک اکاونٹ سامنے آ گئے جن میں غیر ملکی فنڈنگ وصول کر کے استعمال کی جا رہی تھی اور الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق اس سارے عمل سے کبھی آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور اس کیس کے دوران بھی نو سال تک عمران خان اور تحریک انصاف ان اکاونٹس کے وجود کو الیکشن کمیشن اور اپنے کارکنوں سے چھپاتے رہے، ممنوعہ فنڈنگ کیس کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ عمران خان کے خلاف آیا، اس فیصلہ کے قانونی امپلیکیشنز ابھی تک مکمل طور پر سامنے نہیں آئے۔  اس سارے عمل کے دوران اکبر ایس بابر اور ان کے ہم خیال بانی اور ثانوی کارکنوں نے مل کر تحریک انصاف کے اندر ایک "نظریاتی گروپ" بنا لیا۔ انہیں عملاً تحریک انصاف کی سیاست سے الگ کر دیا گیا لیکن وہ کبھی پارٹی سے باہر نہیں نکلے۔

اکبر ایس بابر اب کیا کہتے ہیں؟

بانی کارکن بابر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کارکن پارٹی کو دوبارہ ہائی جیک ہونے سے بچانے کے لئے فورا متحرک ہوں۔مشاورت سے بے داغ اور نظریاتی پارٹی ارکان پر مشتمل مرکزی اور صوبائی پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کا فوری اعلان کرایا جائے۔ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن پارٹی انتخابات کا شفاف اور آئینی طریقہ کار کا فورا اعلان کرے۔

قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ووٹرز لسٹیں جاری کرائی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان  کی شفاف تصدیق، پولنگ کی تاریخ اور طریقہ کار کا بلا تاخیر اعلان ہونا چاہئے۔پی ٹی آئی کارکنوں کی نگرانی میں شفاف انٹرا پارٹی الیکشن سے جماعت ادارہ بن سکتی ہے۔

 اکبر بابر نے اپنے حالیہ انٹرویوز میں کہا کہ شخصی مفادات میں فیصلے نہ ہوتے تو پارٹی کو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتے۔  ورکرز اور پارٹی کی مشکلات کی ذمہ دار ناقص اور کرپٹ قیادت ہے۔ایسے لوگ جماعت پر قابض تھے جنہوں نے ہوسِ اقتدار میں سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔دولت اور اقتدار کے لئے پارٹی ورکرز کو فساد، انتشار اور شخصی مفادات کی بھٹی میں ایندھن کے طور پر استعمال کیاگیا۔

اکبر ایس بابر نے کہا کہ تحریکِ انصاف کو حِکمت اور تجدیدِ نو کی ضرورت ہے۔ 

تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں خرابی کے حوالہ سے سوالات کے جواب میں اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ وسائل، سوشل میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ اب نہیں ملے گا۔ یہ تحریک انصاف کی تنظیمی صلاحیت کا امتحان ہے۔