پنجاب کی بیوروکریسی بے لگام گھوڑا

پنجاب کی بیوروکریسی بے لگام گھوڑا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

قیصر کھوکھر:  پنجاب کی بیوروکریسی اس وقت بے لگام گھوڑا بن چکی ہے، کسی کو پتہ نہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ،ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے اور حتیٰ کہ اب تک چار آئی جی پولیس اور تین چیف سیکرٹری تبدیل ہو چکے ہیں۔

محکمہ بلدیات، محکمہ آبپاشی، محکمہ ہائر ایجوکیشن ، محکمہ لائیو سٹاک، محکمہ سروسز اور کمشنر لاہور اور اضلاع کے ڈی سیز اور ڈویژنل کمشنرز کئی کئی بار تبدیل ہو چکے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پنجاب کی افسر شاہی کی مثال دی جاتی تھی لیکن اب حالات بالکل الٹ ہیں۔ اب بدترین گورننس کے معاملہ میں پنجاب کی بیوروکریسی کا نام لیا جا رہا ہے اور کسی بھی افسر کو یہ ہی معلوم نہیں کہ اس کا ماسٹر کون ہے اسے کون چلا رہا ہے اور کس کا حکم اس وقت پنجاب میں چل رہا ہے ۔

یہ سارے کاسارا وزیر اعلیٰ پنجاب کی بیوروکریسی پر کمزور گرفت کی وجہ سے ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ کو ابھی تک افسر شاہی کی شناسائی نہیں حاصل ہو سکی ہے۔ گزشتہ دنوں حکومت پنجاب نے آصف بلال لودھی کو کمشنر لاہور کے عہدہ سے ہٹا دیا اور ساتھ ساتھ سیکرٹری سروسز ڈاکٹر شعیب اکبر اور کمشنر آصف بلال لودھی دونوں کی خدمات پنجاب سے سرنڈر کر دیں۔ وزیر اعظم نے ایک اجلاس کے دوران چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک سے پوچھا کہ تمہیں پتہ نہیں تھا کہ کس کو کمشنر لاہور لگایا جا رہا ہے اور یہ کہ تم اس وقت کہاں تھے؟ جس پر چیف سیکرٹری پنجاب نے جواب دیا کہ اسے تو کمشنر کی تعیناتی دور کی بات اسے تو سیکرٹری سروسز کی تعیناتی کا بھی پتہ نہیں تھا کہ کب یہ آرڈر ہو گئے ہیں اور کس کے حکم پر ان دونوں افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔

جس پر وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ سے پوچھا تو انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا، جس پر وزیر اعظم سخت ناراض ہوئے اور ان دونوں افسران کو فوری طور پر پنجاب سے سرنڈر کر دیا گیا ہے اور ان کیلئے مستقل قریب میں پنجاب کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیر اعلیٰ اس وقت کمزور ترین آدمی ہیں انہیں کوئی پتہ نہیں کہ کیا کرانا ہے، وفاقی وزرا، وفاقی مشیران وزیر اعلیٰ کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور پنجاب میں بیورو کریسی کے معاملات میں مداخلت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پنجاب حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں وزیر اعظم اور اسلام آباد کی بیوروکریسی بھی مداخلت کرتی ہے اور کچھ نا معلوم قوتیں بھی مداخلت کرتی ہیں اور حکومت کو ہدایات دیتی رہتی ہیں جن کی بعد میںو زیر اعلیٰ پنجاب سے منظور ی لی جاتی ہے ،جس کے بارے میں وزیر اعلیٰ کو پتہ تک نہیں ہوتا ہے۔ اس وقت نامعلوم قوتوں کا اثر ورسوخ کافی بڑھ چکا ہے اور حکومت میں بڑے بہت زیادہ ہو چکے ہیں ۔پشتو کا ایک محاورہ ہے کہ جب کسی کو بددعا دی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ جائو تمہارے بڑے زیادہ ہو جائیں ۔

اس وقت پنجاب کے بڑے بہت زیادہ ہیں اور بہت سے لوگ حکومت چلا رہے ہیں۔ میجر (ر)اعظم سلیمان خان نے میرٹ پر افسر شاہی کو تعینات کیا تھا اور اب اس کے لگائے گئے جس افسر کو بھی ہٹایا جاتا ہے وہاں ایک ایشو بن جاتا ہے۔ میجر (ر)اعظم سلیمان خان کو ہٹانابلا شبہ غلط فیصلہ تھا ،لیکن اب چونکہ یہ ہو چکا ہے لہٰذا اب حکومت کو موجودہ چیف سیکرٹری کو فری ہینڈ دینا چاہیئے اور بیوروکریسی کو مکمل طور پر چیف سیکرٹری کے ماتحت کرنا چاہیے۔ چیف سیکرٹری کے دفتر کو مکمل طور پر ایک مضبوط اور فعال دفتر بنایا جائے تاکہ بیوروکریسی کو کنٹرول کیا جا سکے۔

بیوروکریسی ایک گھوڑے کی مانند ہوتی ہے ۔اس پر جو بھی سوار ہوتا ہے یہ اس کے مزاج کے مطابق چلتی اور کام کرتی ہے لیکن اس وقت اس گھوڑے پر کون سوار ہے کسی کو بھی معلوم نہیں ؟ جب گھوڑے کو چلانے والا ہی کوئی نہیں ہوگا تو گھوڑا کیسے چلے گا۔ ابھی تک حکومت پنجاب سے جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ فعال نہیں ہو سکا اور وہاں پر مختلف محکموں کے سپیشل سیکرٹری اور ماتحت افسران اور عملہ روانہ نہیں کیاجا سکا ۔ ابھی تک محکمہ خزانہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی اسامیاں ہی تخلیق کر رہا ہے۔

اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل بھی نہیں کیا جا سکا ہے ۔ لیہ کا رہنے والا شخص اپنے کام کیلئے بہاولپور جائے گا اور بہاولنگر کا سائل پولیس کے کاموں کیلئے ملتان جائے گا ۔یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک جنوبی پنجاب سیکرٹری دو جگہ پر کیسے کام کرے گا ۔ یہ سب حکومت پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی بدتر گورننس کی مثال ہے۔ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک ایک اچھے اور منجھے ہوئے بیورو کریٹ ہیں اور یہ کہ بیوروکریسی کی وہ تمام سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ،حکومت پنجاب کو انہیں مکمل اور فری ہینڈ دینا چاہئے اور انہیں سیکرٹری اور کمشنر تک کے تقرر و تبادلے کا اختیار ملنا چاہئے تاکہ معاملات بہتر ہو سکیں۔

اس سے وزیر اعلیٰ کے مضبوط ہونے اور آئے روز کی وزیر اعلیٰ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے تبادلوں کی افواہیں از خود دم توڑ دیں گی۔ ایک محاورہ ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اس پر عمل پیرا ہو کر ہی پنجاب حکومت مشکلات سے باہر نکل سکتی ہے۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر