ہمیں ایسی کرکٹ نہیں چاہیئے

ہمیں ایسی کرکٹ نہیں چاہیئے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) لاہور کے شہری کرکٹ میچ کے باعث آج کل ایک اجیرن زندگی سے گزر رہے ہیں۔وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں ایسی کرکٹ نہیں چاہئے جس سے بچے سکول نہ جا سکیں اور کوئی بھی ملازم اپنی ڈیوٹی پر نہ پہنچ سکے، مزدور فیکٹریوں میں کام کےلئے نہ جا سکیں اور پورا شہر جام کر دیا جائے ۔اگر کرفیو نافذ کرکے ہی میچ کروانا ہے تو یہ تو بڑی بات نہیں ایسا میچ تو پھر افغانستان میں بھی پرامن طریقے سے کروایا جا سکتا ہے۔

لاہور کے شہری یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جہنم میں جائے بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی، انہیں ایسا کچھ نہیں چاہئے جس سے ہر سڑک بلاک کر دی جائے اور لوگوں کو گھروں تک محصور کر دیا جائے۔ لوگوں کو روز مرہ کی اشیائے ضروریہ خریدنے کی بھی اجازت نہ دی جائے۔ قذافی اسٹیڈیم لاہور شہر کے دل میں واقع ہے جہاں پر یہ آئے روز کرکٹ میچ ہوتے ہیں اور تمام سڑکیں بلاک کر دی جاتی ہیں۔ قذافی اسٹیڈیم فیروز پور روڈ پر واقع ہے، جہاں فیروز پور روڈ کو بند کرنے سے آدھا شہر بند ہو جاتا ہے۔ مین بلیوارڈ گلبرگ، حسین چوک، کینال روڈ، کلمہ چوک، مسلم ٹاﺅن موڑ ، قذافی اسٹیڈیم کے اطراف میں واقع ہیں اور اس طرح ایک طرح سے پورا شہر ہی بند ہو جاتا ہے۔ شہر کے بڑے سکول کی چین بھی اسی علاقہ میں موجودہے اور لاہور شہر کی ایک بڑی آبادی جس کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں وہ بھی اسی علاقہ میں رہتی ہے۔

 گاڑیوں کی لمبی قطاریں بھی انہی سڑکوں پر لگتی ہیں اور اس عذاب کے شکارعام شہری حکومت کو برا بھلا کہتے نظر آتے ہیں۔ کئی شہری بچوں کو سکولوں سے لینے کےلئے ان سڑکوں پر خوار ہو رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت چھٹی والے دن میچ رکھے یا پھر سارے لاہور شہر کو بند کرنے اور سڑکیں بلاک کرنے کی بجائے میچ والے دن شہر میں عام تعطیل کا اعلان کر دے تاکہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر یہ میچ سکون کے ساتھ دیکھ سکیں اور حکومت کو سڑکیں بند کرنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے، حکومت بھی سکھ میں رہے اور عوام بھی سکون کا سانس لے سکیں۔ بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی ایک خوش آئند قدم ہے لیکن یہ بحالی عوام کے ذہنی سکون پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے بلکہ عوام کو ذہنی تناﺅ ملنے کی بجائے ذہنی سکون کا باعث بننی چاہئے تاکہ اس سے ایک عام آدمی خوش ہو سکے۔ حکومت نے کرکٹ میچ کے دنوں میں شہر کے سکولوں میں آدھی چھٹی کا اعلان کیا ہے لیکن یہ کیسا کرکٹ میچ ہے جو بچوں کی تعلیم میں حرج پیدا کر رہا ہے۔

 بچے سکولوں میں اور والدین گھروں میں پریشان ہیں۔ کرکٹ میچ والے دن دفتروں میں سرکاری ملازمین کی حاضری تقریباً کم رہتی ہے۔ کئی ملازمین ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے دفاتر تک نہیں پہنچ پاتے اور کئی واپس رات گئے اپنے گھر وں کوپہنچے ،کیونکہ ٹریفک بند تھی اور میٹرو بس بند ہونے سے ہزاروں لوگوں کوپیدل ہی خوار ہونا پڑا ۔ شاہدرہ اور شمالی لاہور سے جنوبی لاہور اور قصور اور پیکو روڈ پر واقع فیکٹریوں میں مزدوری کرنے والے مزدوروں کو واپسی پر میٹرو بس بند ہونے سے پیدل گھروں کو جانا پڑا، جس سے وہ رات گئے گھروں کو پہنچے۔

 مین بلیوارڈ گلبرگ، حسین چوک اور گلبرگ کو بند کرنے سے تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئیں اور حتیٰ کہ مال روڈ کو بھی جزوی طور پر بند کیا گیا اور اس طرح لاہور کی ایک کروڑ بیس لاکھ کی آبادی براہ راست اس ٹریفک بلاک کرنے اور سڑکیں بند کرنے سے متاثر ہوئی ہے، یہ کیسا کرکٹ میچ ہے ؟کیا ایسا کرکٹ میچ ہونا چاہیے یا کہ اس کے لئے حکومت کو عوام کے ساتھ مل بیٹھ کر ایک نئے سرے سے پلاننگ کرنا ہوگی تاکہ یہ کرکٹ میچ عوام کے لئے درد سر نہ بن سکیں اور میڈیا عوام کو سڑکیں بند کرنے سے غم غصہ کو دکھانے کے بجائے اس موقع کو ایک خوشی کے موقع میںبدل دے تاکہ ہر کوئی خوش رہے اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب حکومت صرف کرکٹ ٹیم کے گزرنے سے دو منٹ پہلے ٹریفک کو بند کر دے اور جیسے ہی ٹیم گزر جائے ٹریفک کھول دی جائے اور سڑکیں بھی کھلی رہیں اور کرکٹ میچ بھی ہو سکیں ،جیسا کہ دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔ جیسا لاہور شہر میں کرکٹ میچ کے موقع پر کیا جا رہا ہے ایسا دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس طرح کا کرکٹ میچ کہیں پر دکھایا جاتا ہے اگر کرفیو نافذ کرکے ہی میچ کروانا ہے تو یہ تو بڑی بات نہیں ایسا میچ تو پھر افغانستان میں بھی پرامن طریقے سے کروایا جا سکتا ہے۔ انڈیا، بنگلا دیش، نیپال اور سری لنکا کی مثال سامنے ہے۔ وہاں پر بھی سکیورٹی کے مسائل ہیں لیکن ان ممالک میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے ۔ حکومت کرکٹ میچ کو ایک خوشی کا موقع بنائے نہ کہ یہ عوام کےلئے ذہنی اذیت کا باعث بنے۔ اس میں حکومت اور پولیس کی بہتر پلاننگ کی اشد ضرورت ہے ۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر