ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

شہریوں کی غیر قانونی حراست ,لاہور ہائیکورٹ کا پولیس افسروں سے متعلق بڑا فیصلہ جار ی

شہریوں کی غیر قانونی حراست ,لاہور ہائیکورٹ کا پولیس افسروں سے متعلق بڑا فیصلہ جار ی
کیپشن: Lahore High Court
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (ملک اشرف)لاہور ہائیکورٹ نے شہریوں کو غیر قانونی حراست میں رکھنے اور تشدد کرنے والے پولیس افسروں کے متعلق بڑا فیصلہ جاری کردیا۔عدالت نے غیر قانونی حراست میں رکھے جانیوالے شہریوں کو پولیس افسروں کی جیب سے معاوضہ دینے اور اقوام متحدہ کنونشن کے تحت گرفتار ملزموں پر تشدد نہ کرنے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس چودھری عبدالعزیز نے 15 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔تحریری فیصلے میں پولیس میں تشدد کا رویہ ختم کرنے کیلئے اہلکاروں اور افسروں کی تربیت اور مقدمات میں گرفتاری کے وقت فوری طور پر ملزموں کو گرفتاری کی وجوہات بھی فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔عدالت نے پنجاب کے تمام تھانوں میں پولیس رولز اور پولیس آرڈر کے تحت روزنامچہ رجسٹر مرتب کرنے اور تمام تھانوں کی پولیس رولز کے مطابق انسپکشن کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے عملدرآمد کیلئے فیصلے کی کاپی آئی جی پنجاب کو بھی بھجوانے کا حکم دیا ہے۔ تحریری فیصلہ میںکہا گیا ہے کہ پنجاب کے اکثر تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر مرتب ہی نہیں کیا جاتا۔پولیس کا روزنامچہ رجسٹر ترتیب نہ دینے کا مقصد تھانوں میں ہونے والی لاقانونیت کو چھپانا ہوتا ہے۔تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر مرتب نہ کرنا اعلی پولیس افسروں کی لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔
جسٹس چوہدری عبدالعیز نے ، تحریری فیصلہ میں مزید کہا ہے کہ پولیس کے برے اعمال نے کریمنل جسٹس سسٹم کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے عام طور پر پولیس ملزموں کو زیادہ عرصہ حراست میں رکھنے کیلئے انکی گرفتاری روزنامچہ رجسٹر میں درج ہی نہیں کرتی۔تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر ترتیب نہ دینا افسوسناک اور آئین میں دیئے فیئر ٹرائل کے آرٹیکلز کی بھی خلاف ورزی ہے۔آئین کا آرٹیکل 9 شہریوں کی آزادی اور زندگی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔آئین کا آرٹیکل 10 ہر گرفتار شہری کو اسکی وجوہات سے آگاہ کرنے پر زور دیتا ہے۔
 جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے مزید فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 10 گرفتار شہری کو اسکی مرضی کے وکیل سے مشاورت کرنے کا حق دینے کی بھی ضمانت دیتا ہے۔تھانوں میں شہریوں کی غیرقانونی حراست انکے بنیادی حقوق کی نفی ہے،۔عدالتیں غیرقانونی طور پر حراست میں رکھے گئے شہریوں کے معاملے کو معمولی نہیں سمجھ سکتیں۔ریاست کے ہر ادارے پر آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت ہر شہری کی تکریم لازم ہے۔ آئین کا آرٹیکل 14 شہری سے ثبوت کی غرض سے اس پر تشدد کرنے سے روکتا ہے۔آئین اس ملک کا مقدس ترین قانونی دستاویز ہے۔ریاستی اداروں کو شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔۔ پولیس کی غیرقانونی حراست میں شہریوں پر تشدد اور بے حرمتی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔پولیس کے غیر آئینی رویے سے نمٹنے کیلئے عدالتوں کو عملی طور پر آگے آنا پڑے گا۔
 حالیہ برسوں میں پولیس نے اپنے کام میں زوال پیدا کر لیا ہے، پولیس قوانین اور رولز کے تحت گزیٹڈ آفیسر پر لازم ہے کہ وہ سال میں 2 بار تھانوں کی انسپکشن کرے، بد قسمتی سے پولیس تھانوں کی انسپکشن اور دیگر لازم شرائط ختم ہو چکی ہیں، شہریوں کے آئینی حقوق کو پامال کرنیوالے پولیس افسروں کیخلاف مقدمات درج کرنے اور محکمانہ کارروائیوں کا حکم دیا جائے۔
 جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ عدالتیں شہریوں بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے موجود ہیں۔شہریوں کے بنیادی حقوق پامال کرنیوالے سرکاری ملازم کو چھوڑنا آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکلز کالعدم کرنے کے مترادف ہے۔ عدالت امن و امان کیلئے جانیں دینے والے پولیس افسروں اور اہلکاروں کی قربانیوں سے غافل نہیں لیکن پولیس کی جانب سے شہریوں کے حقوق کی پامالی کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں جنہیں روکنے کی ضرورت ہے۔
 بنیادی حقوق پامال کرنیوالے پولیس افسروں سے متاثرہ شہریوں کو معاوضے دلوا کر ایسے رویے کو روکا جا سکتا ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس چودھری عبدالعزیز نے خاتون بی بی کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔خاتون نے عدالت میں محمد ظفر، عابد حسین اور غلام اکبر کی بازیابی کیلئے درخواست دائر کی تھی۔عدالت نے متعلقہ افراد بازیاب کرواتے ہوئے 3 شہریوں کو گرفتار کرنیوالے کانسٹیبل کے اثاثوں کی چھان بین اور کانسٹیبل اکرم کی جیب سے 3 متاثرین کو 40 ہزار روپے اور ایس ایچ او کی جیب سے متاثرین کو 20 ہزار روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔