پنجاب میں خراب انجیکشن سے بینائی متاثر ہونےکے مریض 68 ہوگئے

Punjab, city42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: پنجاب میں خراب انجیکشن لگنے سے بینائی متاثر ہونے کے اب تک 68 مریض سامنے آئے ہیں۔

ذرائع ڈرگ کنٹرولر آفس کے مطابق سب  سے زیادہ  متاثرہ  مریض  ملتان میں سامنے آئے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہےکہ جہاں متاثرہ مریض سامنے آئے وہاں ملزم نوید انجیکشن سپلائی کرتا تھا۔

ذرائع ڈرگ کنٹرولر آفس کے مطابق اصل انجیکشن بنانے والی کپمنی کے 2 ڈسٹری بیوٹرز کو بھی مزید فروخت سے روک دیاگیا ہے۔

دوا سے بینائی متاثر ہونے کے معاملہ میں نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے حکم پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے اور  2 سپلائرزکیخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

نگران وفاقی وزیر صحت ندیم جان نے تصدیق کی ہے کہ  آنکھوں کو متاثر کرنے والی خراب دوائی مارکیٹ سے اٹھالی گئی ہے۔

 نگران وفاقی وزیر صحت ندیم جان کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا آنکھوں کو متاثر کرنے والی دوا کے پورے بیچ کو مارکیٹ سے اٹھا لیا گیا ہے اور اس دوا کو مارکیٹ میں فروخت کی اجازت نہیں ہے۔

ندیم جان نے بتایا کہ آنکھوں کو متاثر کرنے والی دوا فروخت کرنے والے دو سپلائرز کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، کمیٹی تین دن میں اپنی رپورٹ دے گی۔

اطلاعات کے مطابق خراب انجیکشنز سے بینائی جانے کے کیس قصور اور لاہور کے بعد ملتان اور صادق آباد میں بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔ نگران وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق ملتان، صادق آباد میں بھی بینائی متاثر ہونے کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

 وزیر پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر  ڈاکٹر جمال ناصر کا کہنا ہے کہ لاہور ، قصور ، ملتان اور صادق آباد میں الگ الگ ڈیلرز جعلی انجیکشن فروخت کر رہے تھے۔ نگران وزیر صحت کے مطابق پنجاب کے مختلف شہروں میں جعلی انجیکشنز  کی فروخت کا کاروبار کرنے والوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں، جعلی انجیکشنز بیچنے والےنیٹ ورک کا کوئی کارندہ ابھی گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ وزارت صحت پنجاب نے جعلی انجیکشنز بنانے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی درخواست دے دی ہے۔ ڈاکٹر ناصر جمال نے بتایا کہ جعلی انجیکشنز سے متاثر ہونے والے افراد کی فہرستیں بھی تیارکر رہے ہیں۔   ڈاکٹر جمال ناصر کا کہنا ہےکہ جعلی انجیکشن کا سیمپل ٹیسٹ کرانے کے لیے محکمہ صحت پنجاب کی لیب بھجوایا ، ٹیسٹ رپورٹ فوری طور  پر نہیں ملتی اس میں 2 سے 3 روز درکار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر جمال ناصر کا کہنا تھا محکمہ صحت پنجاب کے پاس 20 متاثرہ افراد کے نام آئے ہیں، یہ دوا کافی عرصے سے استعمال ہورہی تھی اور اس پر منافع کی شرح زیادہ ہے، یہ انجیکشن ملٹی نیشنل کمپنی بناتی ہے جسے اچھی ساکھ والی کمپنی ڈسٹری بیوٹ کرتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 100 ملی گرام کے اس انجیکشن میں سے مریض کو1.2 ملی گرام کا ڈوز درکار ہوتا ہے، یہ بڑے ظالم لوگ ہیں جو ایک ایک انجیکشن پر ایک ایک لاکھ روپے کما رہے تھے، اس دوا کے انجیکشن 1200 روپے میں فرروخت کیے جا رہے تھے، تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ دوا ناقص تھی یا ڈاکٹرز سے غلطی ہوئی۔