62 ون ایف میں نااہلی کی بات نہیں کی گئی: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان
کیپشن: Supreme Court of Pakistan
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ   62 ون ایف کوالیفیکشن کی بات کرتا ہے، 62 ون ایف میں نااہلی کی بات نہیں کی گئی۔ کیا کوئی رکن ڈیکلریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کا پابند رہے گا؟ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہنا ہے یا نہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ بنچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل دیے اور کہا کہ پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں، مخصوص نشستوں والے ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا، مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے، مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پر ملتی ہیں۔

  چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ امانت میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے، خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے اور اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتا ہے آپ کے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں؟ کیا کوئی رکن بھی ڈیکلریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کا پابند رہے گا، آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہنا ہے یا نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ممبر شپ فارم میں رکن ڈیکلریشن دیتا ہے کہ ڈسپلن کا پابند رہے گا؟ اگر پارٹی ممبر شپ میں ایسی یقین دہانی ہے تو خلاف ورزی خیانت ہوگی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے، اگر وزیراعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا ممبر پھر ساتھ دینے کا پابند ہے؟ کیا کوئی بھی رکن وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کرسکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفیکٹ ہے جس پر انتحابی نشان ملتا ہے، وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے۔ اس پر  جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹر انتحابی نشان پر مہر لگاتے ہیں کسی کے نام پر نہیں، پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑنے والے جماعتی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ برصغیر میں بڑے لیڈرز کے نام سے سیاسی جماعتی آج بھی قائم ہیں، مسلم لیگ اور کانگریس بڑے لیڈرز کی جماعتیں ہیں، پارلیمانی جہموریت میں پارلیمانی پارٹی اجلاس ہوتے ہیں، اراکین اسمبلی ربڑ اسٹمپ نہیں ہوتے کیوں کہ اگر پارٹی فیصلے سے متفق نہ ہوں تو مستعفی ہوا جاسکتا ہے اور پارٹی اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کے خلاف جایا جائے، رضا ربانی نے پارٹی ڈسپلن کے تحت فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیا، یقین ہے رضا ربانی نے نااہلی کے ڈر سے ووٹ نہیں دیا ہوگا۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے والا استعفی کیوں دے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والا جماعت کے ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ آئین پاکستان ہر شخص کو اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا حق دیتا ہے تو کیا خیالات کے اظہار پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اراکین اسمبلی صرف چار مواقع پر آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے، بطور ایڈووکیٹ جنرل سندھ ہاؤس میں رہتا تھا، سندھ ہاؤس میں ایسی کوئی ڈیوائس نہیں تھی جو ضمیر جگائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ذاتی مفاد کے لیے اپنے لوگوں کو چھوڑ کر جانا بے وفائی ہے، پارٹی کے اندر جمہوریت ہو تو آرٹیکل 63 اے کی ضرورت نہیں رہتی، آرٹیکل 63 اے کی خوبصورتی ہے کہ اسے استعمال کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا مناسب نہ ہوتا کہ صدر پارلیمانی جماعتوں کا بلا کر مشورہ کرتے، کیا عدالت سے پہلے سیاسی جماعتوں سے مشورہ کرنا مناسب نہیں ہوتا؟ پارلیمانی جماعتوں سے مل کر آئین میں ترمیم ہو سکتی تھی۔ اس پر اٹارنی جنرل بولے کہ غلام اسحاق خان اسی طرح سب کو بلایا کرتے تھے۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ابھی تو کسی نے انحراف کیا ہی نہیں آپ ریفرنس لے آئے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جرم کو ہونے سے روکنا مقصد ہے۔ جسٹس مظہر نے کہا کہ جرم ہونے سے پہلے سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے کہ قانون واضح کرنے کے لیے عدالت آئے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو بتانا ہوگا کہ رکن تاحیات نااہل کب ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جرم ہو تو سزا دینے کے لیے قانون واضح ہونا چاہیے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کی تشریح کرنا ہی اس سپریم کورٹ کا کام ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حسبہ بل کے ڈرافٹ پر ہی حکومت عدالت آگئی تھی، حسبہ بل ریفرنس میں بھی قانون نہ بننے کا اعتراض آیا تھا، سپریم کورٹ نے بل کی منظوری نہ ہونے کا اعتراض مسترد کر دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 62 ون ایف کوالیفیکشن کی بات کرتا ہے، 62 ون ایف میں نااہلی کی بات نہیں کی گئی، حکومتی جماعت کے لوگوں کا سندھ ہاؤس میں جاتے ہی ضمیر جاگ گیا۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ وزیراعظم ملک کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو کیا رکن مخالفت نہیں کرسکتا؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے کہ ملک کے خلاف کام ہونے پر رکن خود کو پارٹی سے الگ کرسکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سے اختلاف کرنے والا شخص کیا دوبارہ مینڈیٹ لے سکتا ہے؟  عدالت نے ارٹیکل 63 A کے تحت اعتراف کے نتائج کا تعین کرنا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ کیا عدالت ریفرنس میں جوڈیشل اختیارات استعمال کرسکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے اٹھارہویں ترمیم پر ہونے والے پارلیمانی بحث عدالت میں پیش کردی اور کہا کہ عدالت نے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح کر دی ہے آرٹیکل باسٹھ ون ایف میں بھی خالی جگہ موجود ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ  کیا خالی جگہ عدالت کو پر کرنی ہے؟

جسٹس جمال بولے کہ کیا عدالت آئین میں کسی فل سٹاپ کا بھی اضافہ کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ میں براہ راست تعلق ثابت کروں گا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آئین کے کسی آرٹیکل کو الگ سے نہیں پڑھا جاسکتا باسٹھ اور تریسٹھ کو ملا کر پڑھا جاتا ہے،  پارلیمانی بحث میں ہارس ٹریڈنگ کو کینسر قرار دیا گیا ہے۔ عدالت کو آرٹیکل 63 A کے تحت انحراف کے نتائج کا تعین کرنا ہے۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ پارٹی سے انحراف کرنے والے کے خلاف الیکشن کمیشن کا فورم موجود ہےجس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کی بھوک مٹانے کے لیے چوری کرنا بھی جرم ہے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ کوئی چوری کرنے والے کے ساتھ جائے تو کیا ہوگا؟  صدر مملکت کو ایسا مسئلہ کیا ہے؟ جو رائے مانگ رہے ہیں؟ صدر کے سامنے ایسا کون سا مواد ہے جس پر سوال پوچھے؟ تو اٹارنی جنرل بولے کہ عدالت صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ صدر نے آئین کی تشریح کا کہا ہے ہم تشریح سے ادھر ادھر نہیں جاسکتے اور ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آرٹیکل 63 A سے انحراف پر آرٹیکل 62 ون ایف لگے گا؟ آرٹیکل 63 A نشست خالی ہونے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کوئی رکن ووٹ ڈالنے کے بعد استعفی دےتو کیا ہوگا؟

اٹارنی جنرل بولے کہ بھارت میں ایک رکن نے پارٹی کے خلاف ووٹ دے کر استعفی دیا تھا، بھارتی عدالتوں نے مستعفی رکن کو منحرف قرار دیا تھا، پارٹی سے انحراف پر کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ الیکشن ایکٹ 2017ء بناتے وقت کس چیز کا خوف تھا؟ پارلیمنٹ نے ڈی سیٹ سے زیادہ کچھ نہیں لکھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی بھی پارلیمنٹ نے نہیں کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں عدالت کا کردار شامل ہے، ڈیکلریشن دینے والی عدالت الیکشن ٹربیونل بھی ہوسکتی ہے، کیا الیکشن کمیشن عدالت ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری نظر میں الیکشن کمشن عدالت نہیں جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں تو ڈیکلریشن کون دے گا؟

جسٹس جمال نے کہا کہ اگر تمام جماعتیں متفق ہیں تو آئین میں ترمیم کرلیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین ازخود نہیں بلکہ عدالتوں کے ذریعے بولتا ہے، آئین کی درست تشریح عدالت ہی کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے بھی آرٹیکل 63 A کے تحت نااہلی شامل کی جاسکتی تھی۔  جسٹس منیب اختر بولے کہ اگر ووٹ شمار نہ ہو تو دوسری کشتی میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جسٹس جمال نے کہا کہ کیا آرٹیکل 63 اے آزادی اظہار رائے پر پابندی نہیں؟  تو اٹارنی جنرل بولے کہ دفعہ 302 بھی قتل سےنہیں روکتی لیکن جیل جانا پڑتا ہے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قتل تو 302 کی سزا کے باوجود بھی ہو رہے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے تحت رکن اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے؟ رکن پارٹی ڈائریکشن کی خلاف ورزی کرے گا تو آئینی نتائج بھگتے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت آج تک کوئی نااہل نہیں ہوا، آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر پیسے لینا ثابت کرنا ضروری نہیں۔

بعد ازاں صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر ایک بجے تک ملتوی ہوگئی۔

Muhammad Zeeshan

Senior Copy Editor