اظہر تھراج | 2018 میں ہونیوالے عام انتخابات کو 2 سال مکمل ہوچکے ہیں،ان دو سالوں میں الیکشن میں کامیاب ہونیوالی جماعت تحریک انصاف اور ہارنے والی جماعتیں (اپوزیشن) دونوں عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکی ہیں۔حکمران جماعت نے عوام سے کیے گئے وعدے وفا نہیں کیے تو اپوزیشن اس حکومت ٹف ٹائم دینے میں ناکام رہی ہے،اب عوام پریشان ہیں کہ کس کا ساتھ دیں،اسی لئے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بھی یہی ہیں۔ٹوئٹر پر دلچسپ ٹرینڈنگ جاری ہے، تحریک انصاف اسے عوام کی جیت کا دن قرار دے رہی ہے تو اپوزیشن اسے الیکشن چوری کا نام دے رہی ہے۔ایسے میں ایک شخص نواز شریف تھا جسے عوام یاد کرتے نظر آتے ہیں،دراصل موجودہ حکومت کو جانچنے کا پیمانہ بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کا سابق حکومت سے موزنہ کیا جائے،موجودہ قیادت کو سابق قیادت کی خوبیوں اور خامیوں سے جانچا جائے۔ن لیگی کارکنوں کی خواہش ہے نواز شریف پھر آئیں،کچھ سنجیدہ طبقوں کی بھی یہی خواہش ہے،کیا ایسا ہوپائے گا؟ کیا نواز شریف پھر آئے گا؟ ان سوالوں جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
Every Insafian waited for the PMIK moment; #عوام_کی_جیت_کا_دن pic.twitter.com/7RawGPQyUi
— PTI (@PTIofficial) July 25, 2020
سابق وزیر اعظم نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں یا پھر بہت ہی طاقتور شخصیت ہیں؟ بار بار اقتدار سے نکالے جاتے ہیں اور واپس عوام کے ووٹ سے حکومت بھی کرتے ہیں،جب بھی حکمران بنے محلاتی سازشوں کا شکار ہوئے،ہر بار تخت سے اتارے گئے اور جیل میں ڈالے گئے،ایک بار پھر ضمانت پا کر لندن میں علاج کیلئے موجود ہیں،ان کو باہر بھیجنے والے کہتے ہیں کہ بیماری ڈرامہ ہے لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں وہ بہت ساری بیماریوں کے مریض ہیں،یقیناً ڈاکٹروں کی بات ہی اس حوالے سے اہم ہے۔
ان کی زندگی میں عروج و زوال کی ایک داستاں ہے، کبھی ایوان اقتدار تو کبھی جیل کی سلاخیں مقدر ٹھہریں، جب ملک میں رہنا خطرناک ہوا تو ملک سے باہر دھکیل دیا گیا۔ کارکن انہیں نیلسن منڈیلا قرار دیتے ہیں تو سیاسی مخالفین انہیں کرپٹ، چور اور ڈاکو کے القابات سے یاد کرتے ہیں، آخرایسی کیا وجہ ہے کہ نواز شریف کو بار بار جیل جانا پڑتا ہے؟سابق وزیراعظم نواز شریف جنہیں 2016 میں نااہل قرار دیا گیا، جنرل ضیا الحق کے دور میں سیاست سے روشناس ہوئے۔ انہی کے زیر سایہ تربیت ہوئی۔ اس دور میں لمبے عرصے تک پنجاب حکومت میں شامل رہے۔ کچھ عرصہ پنجاب کی صوبائی کونسل کا حصہ رہنے کے بعد 1981 میں وزیر خزانہ پنجاب بن گئے۔ آمریت کے زیرِ سایہ 1985 میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں قومی اور صوبائی نشستوں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
9 اپریل 1985 کو وزیراعلیٰ پنجاب بنے، 31 مئی 1988 کو جنرل ضیاء نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تاہم میاں صاحب کو بطور نگران وزیراعلیٰ برقرار رکھا۔ جنرل ضیاء نے ایک بار نواز شریف کو اپنی عمر لگ جانے کی بھی دعا دی۔دسمبر 1988 میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کےلیے آئی جے آئی بنی۔ پیپلز پارٹی تو نہ ہاری لیکن پنجاب کی وزارت اعلیٰ ایک بار پھر میاں صاحب کے حصے میں آگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو 1990 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پہلی بار میاں صاحب وزیراعظم بن گئے۔ تاہم اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہ کرسکے اور انہیں اس وقت کے صدر نے ان کے عہدے سے فارغ کردیا۔ اگرچہ ملک کی عدالتِ عظمیٰ نے آئینی مقدمے کے بعد عہدے پر بحال کردیا لیکن جولائی 1993 میں انہیں صدر کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔
1997 میں ایک بار پھر الیکشن میں کامیاب ہوکر مسند اقتدار پر براجمان ہوئے لیکن یہ بہت عارضی ثابت ہوا اور دو سال بعد ہی فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے طیارہ سازش کیس کا بہانہ بنا کر چلتا کیا۔ اس بار نواز شریف کی بڑی غلطی فوج سے پنگا تھا۔ اکتوبر 1999 میں نواز شریف نے اس وقت کے فوج کے سربراہ پرویز مشرف کو ہٹا کر نئے فوجی سربراہ کو تعینات کرنے کی کوشش کی،کچھ عرصہ جیل میں رکھا گیا، مقدمات چلے اور فوج کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے بعد سعودی عرب چلے گئے۔ 2006 میں میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو سے مل کر دستخط کیے اور فوجی حکومت کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا۔ 23 اگست 2007 کو عدالت عظمٰی نے شریف خاندان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی وطن واپسی پر حکومتی اعتراض رد کرتے ہوئے پورے خاندان کو وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد نواز شریف اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب کے پرویز مشرف پر دبائو کے نتیجے میں 25 نومبر 2007 کو لاہور پہنچ گئے۔
2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے واضح اکثریت حاصل کی۔ اس بناءپر وہ تیسری بار وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصا ف کےلیے متنازعہ بن گئے۔ عمران خان نے تین سال تک دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹا اور چین نہیں لینے دیا۔ نواز شریف حکومت کی بدقسمتی تھی کہ اسی دورانیے میں سانحہ ماڈل ٹائون پیش آگیا جس میں 14 افراد قتل اور 90 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ یہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکن تھے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو انصاف دلانے کےلیے انقلاب مارچ کیا اور عمران خان نے دھاندلی کے خلاف لانگ مارچ۔ شہر اقتدار میں دھرنا ہوا، آرمی چیف کی مداخلت پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سمیت 9 افراد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی۔یہ دھرنے تو نواز شریف کا کچھ نہ بگاڑ سکے مگر پانامہ پیپرز میں شائع ہونیوالی ان کی بیرون ملک جائیدادیں اقتدار کا سورج غروب ہونے کی وجہ بن گئیں۔اقامہ چھپانے پر سزا ہوئی اور وزارت عظمیٰ کیلئے نااہل ہوگئے۔
احتساب کے دوہرے معیار اور نیب کے سیاسی کردار سے آہستہ آہستہ دھول چھٹ رہی ہے، نواز شریف کو سزا دینے والے جج کو ویڈیو سامنے آنے پر برطرف کیا جاچکا ہے،نیب کے کردار اور رویے بارے سپریم کورٹ
کے جج کی آبزویشن آچکی ہے،بنیادی انسانی حقوق کے ادارے،تمام سیاسی جماعتیں نیب قوانین تبدیل کرنے پر زور دے رہی ہیں،آٹا چینی سکینڈل،پی آئی اے کے معاملے میں پاکستان کی بدنامی،وزیر اعظم کے مشیروں کی دوہری شہریت پر اپوزیشن وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگ رہی ہے،اس وقت وہی ہورہا ہے جو اپوزیشن میں تحریک انصاف اور عمران خان کرتے آئے ہیں،اسے جمہوریت کا انتقام کہیں یا وقت کا جبر۔ دونوں فٹ بیٹھتے ہیں،اگر یہ اپوزیشن دبائو ڈالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو عمران خان کو جانا پڑے گا،دوبارہ الیکشن ہوتے ہیں تو موجودہ صورتحال میں پھر پی ٹی آئی کا جیتنا مشکل دکھائی دیتا ہے،اس وقت عوام ملک میں بیڈ گورننس ،مہنگائی اور حکمرانوں کے دوغلے کردار کی وجہ سے غصے میں پائے جاتے ہیں،عوام کیلئے حکومتی اقدامات بھی تحریک انصاف کیلئے نفرت کا باعث بن رہے ہیں۔سیاسی جوڑ تو ڑ کے ماہر کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جن لوگوں نے باہر بھیجا ہے،وہی واپس بھی لائیں گے،حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے،وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں،سیاست میں تو اس کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، سمجھ داری کی بات یہ ہے کہ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کا اصول اس وقت کارگر ثابت ہوگا۔