(قیصر کھوکھر) پنجاب کی بیوروکریسی کو اس وقت کون چلا رہا ہے کسی کو بھی معلوم نہیں، آئے روز کے تقرروتبادلے کون کر رہا ہے اور کس طرح افسر شاہی کو چلایا جا رہا ہے کوئی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں ۔
پنجاب میں اب تک چار آئی جی پولیس، چار کمشنرلاہور اور تین چیف سیکرٹری تبدیل ہو چکے ہیں، محکمہ بلدیات، محکمہ ہائر ایجوکیشن، محکمہ آبپاشی، محکمہ سروسز کے سیکرٹریز کئی کئی بار تبدیل ہو چکے ہیں۔
پنجاب کی افسر شاہی میں اس وقت ایک کھچڑی پکی ہوئی ہے،ایک وقت تھا کہ پنجاب کی بیوروکریسی کی مثال دی جاتی تھی اور دوسرے صوبے پنجاب کی بیوروکریسی کو فالو کرتے تھے لیکن آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔
بیوروکریسی میں تبادلوں کے خوف سے کام کی رفتار بھی غیر تسلی بخش ہے، جبکہ دفاتر میں کام نہ ہونے سے سائلین حکومت سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی گورننس بہتر بنانی ہے تو بیوروکریسی میں پایا جانیوالا خوف ختم کرنا ہوگا تاکہ افسران بلاخوف وخطر اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
گزشتہ دنوں جب وزیر اعظم عمران خان نے پوچھا کہ آصف بلال لودھی کو کس نے کمشنر لاہور لگایا تھا؟ تو وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیف سیکرٹری نے ذمہ لینے سے یکسر انکار کر دیا اور کہا کہ انہیں معلوم نہیں، جس پر سیکرٹری سروسز ڈاکٹر شعیب اکبر اور کمشنر لاہور آصف بلال لودھی کو پنجاب سے ان کی خدمات کو سرنڈر کر دیا گیا۔
وزیر اعظم کو اس بار پنجاب کے تقرر و تبادلوں پر مداخلت بھی کرنا پڑی اور وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو چیف سیکرٹری کو اعتماد میں لے کر تقرر و تبادلے کرنے کی ہدایت کی۔
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ جب تک پنجاب میں بیوروکریسی کی ایک مضبوط ٹیم نہیں بنائی جاتی، اس وقت تک چیف سیکرٹری اور آئی جی تبدیل ہوتے رہیں گے اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی تبدیلی کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں گی۔