(قیصر کھوکھر) نگران حکومت نے چارج سنبھالتے ہی نوکر شاہی میں کریک ڈاﺅن شروع کر دیا ہے اور بڑے پیمانے پر افسران کی اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی ہے۔ اس ہونے والی اکھاڑپچھاڑ میں کئی غیر جانبدار افسر بھی پس گئے ہیں اور وہ نگران حکومت سے نالاں بھی ہیں کہ ان کا کیا قصور ہے انہیں کیوں تبدیل کیا گیا ہے ؟وہ تو ریاست کے ملازم ہیں۔اور جو حکومت وقت ہوگی اس کی وفاداری کرنا ان کی اولین ڈیوٹی ہے۔
اگر ان کے کام کی وجہ سے سابقہ حکمرانوں نے انہیں اچھی تقرری دی تو اس سے کیا ہوا کہ نگران حکومت نے آتے ہی انہیں صوبہ بدر کرنا شروع کر دیا ہے اور ان پر ایک لیبل لگا دیا گیا ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے آلہ کار تھے نہ کہ ایک پیشہ ور افسر۔ لیکن اس ساری مشق میں کئی بے گناہ افسران کو بھی ٹرانسفر یا صوبہ بدر کرنا ایک زیادتی ہے۔ ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے کئی پسندیدہ افسران پنجاب میں ہی تقرری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ کیپٹن (ر) محمد محمود ، علی بہادر قاضی مومن آغا اور اسد اللہ خان پنجاب میں ہی رہنے میں کامیاب ہو گئے ہیں حالانکہ سابقہ حکومت بھی ان پر بڑی مہربان تھی، اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرانسفر ہونے والے افسران خلائی مخلوق تھے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن ان سے خوفزدہ ہیں۔ اور انہیں صوبہ بدر کیا جا رہا ہے۔
سینئر افسران کو ان کی پنجاب میں دورانیہ کی بنا پرپنجاب سے سرنڈر کرنا وقت کی ضرورت ہے، لیکن ان پر یہ الزام کہ یہ افسران ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے آلہ کار تھے، نگران حکومت کو اس کی وضاحت کرنا ہوگی۔ اس دھینگا مشتی میں کئی افسر ادھر ادھر کر دیئے گئے ہیں ،ان میں سے ماضی کی حکومت سے نظر انداز ہونے والے کئی افسران کو واپس پنجاب بلا لیا گیا ہے، جن میں ڈی آئی جی طارق عباس قریشی اور ڈی آئی جی محمد عمر شیخ شامل ہیں ۔ محمد عمر شیخ ایک مضبوط اعصاب کے افسر ہیں، شاید اسی لئے انہیں ریموٹ ایریا میں ڈی جی خان کا لگایا گیا ہے۔ سیکرٹری سروسز فرحان عزیز خواجہ، سابق ڈی سی بہاولپور رانا محمد سلیم افضل، سابق ڈی سی لودھراں راجہ خرم شہزاد عمر، سابق ڈی سی نارووال علی عنان قمر ، سابق ڈی سی شیخوپورہ ارقم طارق ”تین میں تھے نہ تیرہ“ میں لیکن انہیں بھی صوبہ بدر کر دیا گیا ہے ۔حالانکہ ان افسران پر کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی ٹیگ نہیں ۔
سابق سیکرٹری سکولز ایجوکیشن ڈاکٹر اللہ بخش ملک جیسے کئی افسران ہیں جن کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق بھی نہیں، لیکن انہیں صوبہ بدر کر دیا گیا ہے۔ ان تبادلوں کے ٹی اے ڈی اے کی مد میں خزانے پر کروڑوں روپے کا بھاری بوجھ بھی ڈالا گیا ہے۔ لیکن اس سارے تناظر میں اس بات پر غور نہیں کیا گیا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میںمحض اس بنیاد پر افسران کے تبادلے کئے گئے ہیں کہ وہ ماضی کی حکومت کے ارادی طور پر یا غیر ارادی طور پر حامی تھے، تو ان کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی جن میں پیڈا ایکٹ یا ای اے ڈی اے رولز کے تحت کارروائی ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا ۔
افسران کو صوبہ بدر کرنا کافی نہیں ، ان کے خلاف انکوائری ہونا چاہیے تھی کہ اگر وہ ایک سیاسی جماعت کے آلہ کار تھے توکیوں یہ خود ایک جرم بنتا ہے لیکن نگران حکومت نے محض ان افسران کو صوبہ بدر کر کے ایک نئی روایت ڈال دی ہے کہ آنے والی ہر حکومت انہی افسران کو ایک سیاسی جماعت کے حامی افسران کے طور پر سلوک کرے۔ گریڈ 21کے پی اے ایس افسر کیپٹن (ر) نسیم نواز نگران دور کے افسر کے طور پر مشہور ہو گئے ہیں، پہلے نگران دور میں وہ ڈی سی لاہور ، پھر دوسرے میں وہ کمشنر لاہور اور اب وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم تعینات ہوئے ہیں۔ پتہ نہیں ان کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ صرف نگران دور میں ہی نمودار ہوتے ہیں۔
نگران حکومت نے کمپنیوں میں کام کرنے والے افسران کو نہیں چھیڑا ہے، حالانکہ ان کمپنیوں میں کام کرنے والے افسران پر ایک جانب عدالت عظمیٰ برہم ہے اور دوسری جانب نیب بھی متحرک ہے۔ ان نیب زدہ افسران کو نہ تو صوبہ بدر کیا گیاہے اور نہ ہی انہیں کمپنیوں سے واپس تبدیل کیا گیا ہے۔ اس میں کیا نگران حکومت کی منطق ہے؟ یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سارے تبادلے نگران حکومت نے الیکشن کمیشن اور اپوزیشن جماعتوں کے دباو پر کئے ہیں لیکن اس ساری مشق میں اہم عنصرپریذائیڈنگ افسران کا ہے ۔ ملک کے تمام پولنگ سٹیشن پر اکثر پریذائیڈنگ افسران کا تعلق محکمہ ایجوکیشن سے ہوتا ہے اور معاشی اعتبار سے یہ کمزور سوشل سٹیٹس کے حامل ہوتے ہیں۔
نگران حکومت کو ایک مضبوط سروس کے افسران کو پریذائیڈنگ افسرتعینات کرنا چاہئیں کیونکہ الیکشن کے دن پولنگ سٹیشن پر دھاندلی کا عنصر موجودہوتا ہے پولنگ سٹیشن پر مخالف امیداوار مخالف ووٹرز کو ہراساں کرتے ہیں۔سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق بھی کہہ رہے ہیں کہ آر اوز کو بھی تبدیل کیا جائے۔ ورنہ میں الیکشن نتائج نہیں مانوں گا۔ پتہ نہیں کہ نگران حکومت ان افسران سے خوفزدہ کیوں ہے؟ حالانکہ یہ افسران خلائی مخلوق نہیں ہیں۔ اگر خلائی مخلوق نے ہی ووٹ ڈالنے ہیں تو افسران کے یہ تقرر و تبادلے کیوں ہیں۔
نگران حکومت کے بعد بننے والی حکومتوں کو افسر شاہی کو غیر جانبدار رکھنے کے لئے کام کرنا ہوگا تاکہ اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔ نگران حکومت اضلاع کے ڈی سی کو ایک ضلع سے تبدیل کر کے کسی دوسرے ضلع میں ڈی سی لگانے یا ایک اے سی یا ایک ڈی پی او کو ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں تعینات کرنے سے کیا یہ افسران غیر جانبداری برقرار رکھ سکیں گے ؟اور کیا یہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کے وژن پر پورا اتر سکیں گے۔ ؟ موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب اکبر حسین درانی ایک بہترین چوائس ہیں ۔
انہوں نے چارج سنبھالتے ہی اوپن ڈورپالیسی شروع کر دی ہے اور ایک عام آدمی سے لے کر چپڑاسی تک کو خود ملتے ہیں اور ہر ملنے آنے والے کو چائے اور کیک پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے سختی سے دیگر نوکر شاہی کو بھی اوپن ڈور پالیسی قائم کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے افسران اور عوام کے درمیان رابطہ بہتر ہوگا اور از خود کئی مسائل حل ہو جائیں گے۔