سٹی 42 :خواجہ سراؤں کے بارے میں عام تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنا گزر بسر کرنے کے لیے یا تو بھیک مانگتے نظر آتے ہیں یا پھر شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ڈانس کرتے ہیں۔خواجہ سرائوں کا عام معاشرے میں جینا بھی حرام ہے،سڑک پر کوئی خواجہ سرا نظر آجائے تو لوگ عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے ہیں،آوازیں کستے ہیں،اب حالات بدلتے جارہے ہیں خواجہ سرا بھیک اور رقص چھوڑ کر مذہب کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
اسلام آباد کی رہائشی خواجہ سرا رانی خان نے تمام غیر قانونی اور معاشرے میں برے سمجھے جانے والے دھندے چھوڑ کر اپنی کمیونٹی کے افراد کو قرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کیا۔برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے رانی خان نے بتایا کہ 'میں 20 سال تک ڈانس کرتی رہی ہوں، پہلے خواجہ سراؤں کی گرو تھی لیکن جب سے مدرسہ کھولا ہے تو اب میرے ساتھی مجھے باجی، استانی اور آپا کہتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے'۔
رانی خان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا 12 سے 13 برس کی عمر میں گھر سے نکل جاتے ہیں، ہر جگہ مسجد اور مدرسہ موجود ہے جہاں بچے قرآن پاک پڑھنے آتے ہیں لیکن خواجہ سرا کمیونٹی کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جب وہ بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو انہیں مختلف قسم کے القابات سے پکارا جاتا ہے جس سے ان کی سوچ تبدیل ہو جاتی ہے اور دینی و دنیاوی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں،میں نے 20 سال کی کمائی جمع کی اور پھر مدرسہ کھولا، اب میں نے بھیک مانگنا اور ڈانسنگ چھوڑ دی ہے، سیکس ورک تو میں نے بہت پہلے چھوڑ دیا تھا۔
میں بار بار اللہ سے التجا کرتی رہی ہوں اور بار بار معافیاں مانگتی رہی ہوں، مجھے کسی گرو نے نہیں کہا کہ آؤ ہم آپ کو پڑھاتے ہیں، میں نے خود سے پڑھا، میں اپنی کمیونٹی کے دیگر افراد کے پاس گئی اور انہیں قرآن پڑھنے کی دعوت دی، پھر انہیں ہم نے اپنی طرف سے کھانا دینا شروع کیا، اب ہم 10 خواجہ سراؤں کو اپنی جیب سے کھانا، میڈیکل اور ان کے گھر کا کرایہ دے رہے ہیں،میں خود خواجہ سرا ہوں، مجھ سے پڑھنے میں انہیں کسی قسم کا مسئلہ درپیش نہیں ہو گا، میں سمجھتی ہوں کہ ایک خواجہ سرا دوسرے خواجہ کو بہتر طریقے سمجھ سکتا ہے۔