سانحہ مینار پاکستان ،پولیس نے اتنے زیادہ لوگ کیسے پکڑ لئے ؟اندرونی کہانی سامنے آ گئی  

Minare pakistan incident
کیپشن: Minare pakistan incident
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک)لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں یوم آزادی 14 اگست کے روز شرمناک واقعہ پیش آیا تھا جہاں 400 منچلوں نے ٹک ٹاکر عائشہ اکرام خاتون سے بدتمیزی کی، کپڑے پھاڑ دیے، ہوا میں اُچھالتے رہے۔ ہجوم میں شامل افراد کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ وہ لگ بھگ بیس سے پچیس منٹ تک خاتون کو ہراساں کرتے رہے۔
اسی وقت قریب موجود کئی افراد  کی جانب سے اپنے موبائل فونز کے ذریعے  بنائی گئی چند ویڈیوز جب سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئیں تو اس واقعے کے بارے میں علم ہوا اور پولیس سے کارروائی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔
سوشل میڈیا صارفین کی بنائی ہوئی ویڈیوز کارآمد ثابت ہوئیں لیکن ان ویڈیوز کے ذریعے پولیس محض چند مرکزی کرداروں کی شناخت ہی کر پائی ،ان ویڈیو زمیں نظر آنے والے بہت سے افراد کی شناخت ممکن نہیں تھی۔ متاثرہ خاتون کے لیے بھی ممکن نہیں تھا کہ وہ تمام تر افراد کی شکلیں دیکھ پاتیں یا یاد رکھتیں۔ ایسے لوگ شاید سمجھ رہے ہوں گے کہ وہ بظاہر محفوظ ہیں کیونکہ ویڈیوز میں ان کے چہرے نظر نہیں آ رہے تھےلیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی کیونکہ  کوئی انہیں دیکھ رہا تھا اور پولیس بالآخر اُن تک پہنچ گئی۔ لاہور پولیس کے ترجمان کے مطابق پولیس اس وقت تک 130 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کر چکی ہے جن میں سے کچھ کا تعلق لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں سے ہے۔
پولیس نے جن افراد کو ابتدائی طور پر گرفتار کیا ان کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے ان کے معاونین اور ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یوں درجنوں افراد پولیس کے ہتھے چڑھے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی پنجاب پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر 30 ویڈیوز جمع کی گئیں اور ان کی مدد سے مشتبہ افراد کی 60  تصاویر شناختی دستاویزات  نادرا کو بھیجی گئیں۔
 نادرا نے اس طریقے سے نو افراد کی شناخت کی جن کی اس روز جائے وقوعہ پر موجودگی کے حوالے سے دیگر طریقوں سے بھی تصدیق کر لی گئی تھی۔انسپکٹر جنرل آف پولیس کے مطابق ان نو افراد سے پوچھ گچھ کے ذریعے مزید گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور اس طریقہ کار سے کل 92 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا تھا جن کے اس واقعے سے تعلق کے بارے میں جانچ کی جا رہی تھی۔
اسی رپورٹ میں آئی جی پنجاب نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ پولیس نے کل 730 مشکوک افراد میں سے 407 افراد سے تفتیش کی تھی جن میں سے 130 کو  گرفتار کیا جا چکا تھا۔
 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس ان افراد تک کیسے پہنچی جنہیں نہ تو عینی شاہدین نے دیکھا، نہ سکیورٹی کیمروں سے ان کی واضح تصاویر مل سکیں اور نہ ہی ان کے کوئی ساتھی ابتدائی طور پر پولیس کے ہتھے چڑھے؟
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق جب ان مشتبہ افراد کو اور کوئی نہیں دیکھ رہا تھا تو ان کے پاس موجود ان کے اپنے موبائل فون ہی انہیں دیکھ رہے تھے۔ پولیس انہی کی مدد سے ان  تک پہنچی۔   تحقیقات کے اس طریقے کو پنجاب پولیس ’جدید طریقہ‘ یا ’جیو فینسنگ‘ کا نام دیتی ہے۔
  نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لاہور پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ جیو فینسنگ کی مدد سے سینکڑوں مشکوک افراد کی مینارِ پاکستان پر اس روز موجودگی کے حوالے سے معلومات ملیں جن کی مدد سے جلد ملزمان تک پہنچنا ممکن ہو پایا۔

جیو فینسنگ بنیادی طور پر ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں ایک مخصوص علاقے کے گرد ایک ڈیجیٹل یا ورچوئل فینس یا حد مقرر کر دی جاتی ہیں۔ پھر ایک خاص وقت کے دوران اس حد کے اندر موجود موبائل فونز کا پتہ چلایا جاتا ہے۔

تاہم پولیس اہلکار کے مطابق وہ جیو فینسنگ کے طریقہ کار کی زیادہ تفصیلات اس لیے نہیں دے سکتے تھے کیونکہ پولیس اس طریقہ کار کو مجرموں تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتی ہے اور اس کے کام کرنے کا طریقہ جان لینے سے مجرموں کو مدد مل سکتی تھی۔

  واضح رہے کہ لاہورگریٹر اقبال پارک میں لڑکی سے دست درازی کا واقعے پر سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم نے ویڈیوز میں نظر آنے والے ملزمان  سے متعلق  اشتہار بھی جاری کیا تھا۔

 ذرائع کے مطابق اشتہار میں عوام کو ملزمان کے بارے اطلاع دینے کی اپیل کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی گئی  تھی کہ  واقعہ میں ملوث ملزمان کا نام بتانے والے کا نام  مکمل راز میں رکھا جائے گا۔