جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی قسمیں ،جھوٹے روپ کے درشن 

جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی قسمیں ،جھوٹے روپ کے درشن 
کیپشن: File photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

تحریر، عامر رضا خان :ایک عدالت میں ایک دیہاتی کو گواہی کے لیے لایا گیا وکیل نے دیہاتی سے کہا تمہیں اپنی گواہی سے پہلے قرآن اٹھانا ہوگا ، دیہاتی ڈر گیا اُس نے کہا میں قرآن نہیں اٹھاؤں گا بات بگڑ گئی وکیل بارہا کوشش کے باوجود دیہاتی کو منا نہیں سکا تو تنگ آکر جونیئر وکیل نے میز سے قرآن اٹھا کر کہا جب تک اسے نہیں اٹھاؤگے گواہی نہیں مانی جائے گی، دیہاتی بولا اچھا یہ قرآن ہے یہ تو میں سات آٹھ اٹھا لوں گا ، میں سمجھا پتہ نہیں کیا اٹھوانا چارہے ہیں  -
یہ سب مجھے لکھنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ معروف صحافی جناب مجیب الرحمٰن شامی نے اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا جس کے مطابق پاکستان آرمی کے سابق سربراہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے شادی کی ایک محفل میں ملاقات میں قرآن پاک ہاتھ میں اٹھا کر اور اپنی مرحومہ والدہ کی قبر کا حوالہ دیکر قسم اٹھائی اور تین باتیں کہیں پہلا کہ عمران حکومت گرانے میں امریکا کا کوئی کردار نہیں ، دوم نواز شریف کو برطانیہ بھجوانے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے ، ہم سب مسلمان ہیں اس لیے ہمارا ایمان ہے کہ مسلمان سب کچھ کرسکتا ہے قرآن پاک جو کہ کلام ربی ہے کی جھوٹی قسم نہیں کھاتے لیکن معاملہ تو یہ ہے کہ خود اللہ پاک نے قرآن پاک میں جھوٹی قسموں کے حوالے سے ایسے لوگوں کے لیے وعید سنائی ہے اورکچھ ایسی ہی باتیں نبی اکرم ﷺ نے بھی فرمائی ہے ۔
قمر جاوید باجوہ کی قسموں بھری کہانی میں کتنی صداقت ہے اور کتنا جھوٹ کی آمیزش یہ تو مجیب الرحمٰن شامی از خود قمر جاوید باجوہ ہی فرماسکتے ہیں میرے جیسے عام نوعیت کے مسلمان کے لیے تو یہی بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اپنی جیب میں قرآن پاک رکھتے ہیں وہ بھی ہمہ وقت اور وہ انہوں نے شادی کی تقریب میں بھی خود سے الگ نہیں کیا اور ادھر انہوں نے مجیب الرحمٰن شامی سے گفتگو شروع کی، اُدھر جھٹ سے قرآن پاک نکال کر قسم بھی کھالی ، اس سے بھی زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ ہم سب کا ایمان ہے کہ قرآن پاک اللہ پاک کا کلام ہے اور کرہ ارض پر اس سے زیادہ مقدس اور کوئی کتاب یا انسان نہیں لیکن باجوہ صاحب کو ہاتھ میں قرآن پاک لیکر بھی اپنی مرحومہ والدہ کی قسم اٹھانا پڑی اس کی ضرورت کیوں انہوں نے محسوس کی کیا وہ یہ سمجھتے تھے کہ اُن کی کسی بات کا اعتبار مجیب الرحمٰن شامی نہیں کریں گے اس لیے انہوں نے اپنی بات کی مضبوطی کے لیے اپنی والدہ کی قبر کو بھی گواہ بنایا ۔


مجھے اس بات کی بھی حیرانی ہے کہ الزام عمران خان کا امریکہ پر ہے جس کی وضاحت عمران خان خود بھی بارہا کر چکے ہیں کہ انہیں غلط فہمی ہوئی تھی امریکہ اس میں ملوث نہیں تھا لیکن اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے جناب قمر جاوید باجوہ کیوں وضاحت دے رہے ہیں اور وہ بھی مقدس کتاب اور اپنی مرحومہ والدہ کی قبر کی قسم کھا کر ، اب آئیں دوسری قسم پر کہ جس میں وہ فرماتے ہیں کہ نواز شریف کو بیرون ملک بھجوانے میں اُن کا کوئی کردار نہیں تھا یہ خالصتاً عمران حکومت کا اپنا فیصلہ تھا ، اس بات سے پاکستان تحریک انصاف کے موقف کی نفی ہوتی ہے جو انہوں نے جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنایا تھا کہ عمران خان کی حکومت کے تمام اہم فیصلے تو باجوہ کر رہے تھے حتیٰ کہ نواز شریف کی بیرون ملک جانا بھی انہی کے حکم پر ممکن ہوا لیکن اب باجوہ صاحب اس سے انکار کر کے تحریک انصاف کے موقف کو جھٹلا رہے ہیں ، تیسری قسم کے مطابق جنرل (ر) باجوہ کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی ایکسٹینشن کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ اُنہوں نے کبھی یہ چاہا ہی نہیں تھا کہ مجھے مدت ملازمت میں توسیع چاہیے ہی نہیں تھی ۔
ان معزز قسموں کے بعد مجھے تو باجوہ صاحب کی کہی ہر بات پر یقین کامل ہے لیکن مقام عبرت تو ہے کہ جس شخص کے ابروئے چشم سے ملک میں ہر کام ہوتا تھا یا یوں کہہ لیں کہ ایسا تاثر تھا آج اُس شخص کی کہی بات کی وقعت اتنی ہے کہ اُسے یقین دہانی کے لیے قسموں کا سہارا لینا پر رہا ہے ۔
مجیب الرحمٰن شامی کوئی پہلے صحافی نہیں ہیں جن سے ملاقات میں باجوہ صاحب نے دل کے پھپھولے پھوڑے ہوں اس سے قبل بھی وہ جاوید چودھری سمیت چند اچھے کہانی نویسوں کی خدمات حاصل کر چکے ہیں اب کے بھی اس کہانی میں نا مرکزی کردار نیا ہے نا کہانی ہاں کچھ نیا ہے تو وہ ہیں یہ قسمیں ۔
چلتے چلتے یہ بھی پڑھ لیں کہ قرآن و حدیث میں جھوٹی قسموں کے حوالے سے کیا کہا گیا ہے ۔
’’ترجمہ:اور کسی بھی ایسے شخص کی باتوں میں نہ آنا جو بہت قسمیں کھانے والابے وقعت شخص ہے۔‘‘ (سورۃ القلم)
’’ترجمہ: یہ لوگ اللہ کی (جھوٹی) قسمیں کھا جاتے ہیں کہ اُنہوں نے فلاں بات نہیں کہی، حالانکہ اُنہوں نے کفر کی بات کہی ہوتی ہے۔‘‘ (سورۃ التوبہ)
حدیث مبارکہ ہے 
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ بڑے بڑے گناہ یہ ہیں: (۱) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا (۲) والدین کی نافرمانی کرنا (۳) کسی کو بے گناہ قتل کرنا (۴) جھوٹی قسم کھانا۔‘‘ (سنن نسائی)

نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر