( ملک اشرف ) لاہور ہائیکورٹ میں کراچی طیارہ حادثے کی تحقیقات رکوانے اور جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت، عدالت نے سیکرٹری ہوا بازی، ڈائریکٹر سول ایوی ایشن سمیت دیگرز فریقین سے 28 جولائی کو رپورٹ طلب کرلی۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس محمد قاسم خان نے مفتی احتشام الدین حیدر ایڈوکیٹ سمیت دیگرز کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار وکلاء نے سیکرٹری ہوا بازی، ڈائریکٹر سول ایوی ایشن، ڈائریکٹر ایئر ٹریفک کنٹرول، پی آئی اے، ایئر بلیو، شاہین ایئر لائنز، ایاٹا، پالپا، ایئر کرافٹ انویسٹیکشن بورڈ سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین میں تمام شہریوں کے بنیادی حقوق اور زندگی کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ 50 برسوں میں طیاروں کے 20 حادثات میں 1 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ کراچی میں 22 مئی کو طیارہ حادثے میں بھی 97 شہری شہید ہوئے، قطر ایئر ویز، ایمریٹس ایئر لائنز سمیت دنیا بھر کی 43 ایئر لائنز میں کبھی ایسے حادثات پیش نہیں آئے، اتنے بڑے بجٹ کے باوجود پاکستانی ایئر لائنز انتہائی پرانی ہیں۔
پاکستان میں طیارہ حادثات ایئر لائنز کمپنیوں اور سول ایوی ایشن کی نااہلی کو ثابت کرتے ہیں، پاکستان ایئر لائنز نے ایمریٹس ایئر لائنز کے قیام میں مدد کی تھی اور آج وہی کمپنی 257 ہوائی جہاز چلا رہی ہے، پی آئی اے آج بھی صرف 65 جہازوں کے ساتھ کام چلا رہی ہے۔ کورونا وائرس کے باعث پی آئی اے، شاہین ایئر لائنز اور ایئر بلیو کرایوں کی مد میں بھاری رقوم وصول کر رہی ہیں، سول ایوی ایشن کاک پٹ عملے کی مناسب تربیت کروانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ سول ایوی ایشن طیاروں کے پرواز بھرنے سے قبل ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے میں بھی ناکام ہو چکی ہے۔
پی آئی اے سمیت تمام ایئر لائنز طیاروں کے پرواز بھرنے سے قبل سول ایوی ایشن کی ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی طیاروں کی وقتا فوقتا دیکھ بھال کرنے کے ایس او پیز پر بھی عملد درآمد نہیں کررہی۔ پاکستان میں اب تک ہونے والے طیارہ حادثات کی ایک بھی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی۔
کراچی طیارہ حادثے کی تحقیقات کرنے والا بورڈ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے زیر اثر ہے ایسے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کی توقع نہیں کی جا سکتی، پائلٹس نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا ہے کہ تمام ملبہ کراچی طیارہ حادثے کے پائلٹ پر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی، طیارے بنانے والی کمپنی مکمل رپورٹ تیارکرنے میں 2 سے 3 برس کا وقت لے گی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی جلد رپورٹ منگوانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کرے گی۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ کراچی طیارہ حادثے کی جلد اور غیر جانبدار تحقیقات کروانے کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا جائے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد ذمہ داروں کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینے کا حکم بھی دیا جائے۔ وفاقی حکومت کو سول ایوی ایشن کا مستقل ڈائریکٹر بھی تعینات کرنے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کیخلاف ایئر پورٹس کے ارد گرد زمین پر قبضے اور بلندو بالا عمارات تعمیر کروانے پر بھی کارروائی کی جائے۔
درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ درخواست کے حتمی فیصلے تک کراچی طیارہ حادثہ کی تحقیقات کرنے والے بورڈ کو کام کرنے سے روکا جائے۔