ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک بیوی کئی خاوند

ایک بیوی کئی خاوند
کیپشن: City42 - Qaiser Khokhar
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) پنجاب کی بیوروکریسی کے پہلے سو دن پر نظر ڈالیں تو کھویا بہت کچھ اور پایا کچھ بھی نہیں ۔وزیر اعظم عمران خان خود پریشان نظر آتے ہیں کہ پہلے سو دن کے لئے عوام سے جو وعدے کئے تھے ابھی تک وہ پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ مالی اور اقتصادی مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں۔پی ٹی آئی کی حکومت میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ماضی میں مسلم لیگ نون ، مسلم لیگ قاف یا پیپلز پارٹی کا حصہ رہ چکے ہیں۔ مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے اور بجلی کا حال تو عوام کے سامنے ہے۔نئے صوبے بنانے کا کام بھی مکمل طور پر التوا کا شکار ہے۔ عمران خان بار بار عوام کو تسلیاں دیتے نظر آتے ہیں،لیکن مضبوط اپوزیشن کھل کر تنقید کررہی ہے۔

آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری کی اچانک تبدیلی نے ایک نیا ابہام پیدا کر دیا ہے کہ کسی کا کوئی پتہ نہیں کہ کب کہاں بھیج دیا جائے گا۔ پہلے سو دن میں آئی جی پولیس کو محض ایک ماہ بعد ہی تبدیل کرنا ایک چونکا دینے والا کام ہے ۔ آئی جی پولیس محمد طاہر کو صرف اس لئے تبدیل کر دیا گیا کہ انہوں نے سانحہ ماڈل ٹائون میں ملوث افسران کو او ایس ڈی بنانے سے انکار کیاتھا۔نئے تعینات ہونے والے آئی جی پولیس امجد جاوید سلیمی ایک محنتی اور متحرک قسم کے پولیس افسر ہیں جن کا ماضی میں فیلڈ اور ہیڈ کوارٹر تقرری کا وسیع تجربہ ہے۔سابق چیف سیکرٹری اکبر حسین درانی کی اوپن ڈور پالیسی کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے اور ان کا وقت سے پہلے تبادلہ بھی ایک عجب فیصلہ تھا ،حالانکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ چیف سیکرٹری اکبر حسین درانی کو تبدیل نہیں کیا جائے گا لیکن اب نئے تعینات ہونے والے چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر ایک بہترین افسر ہیں ،جو ہر دور حکومت میں کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ قاف کے دونوں ادوار میں کام کیا ہے۔

پہلے چالیس دن تک نگران دور کی بیوروکریسی سے کام چلایا گیا اور اب ضمنی انتخابات کے بعد اچانک بیوروکریسی کو تبدیل کیا جا رہا ہے اور اگلے مرحلے میں بیوروکریسی کے سو دن پورے ہونے سے قبل ہی پنجاب کے اکثر اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو ہٹایا جا رہا ہے ۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کو یہی پتہ نہیں کہ کیا کیا جائے اور کس کو کہاں لگانا ہے ۔ اسی لئے ابھی تک افسران کو یہی پتہ نہیں چل سکا ہے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ ابھی تک نہ تو پی ٹی آئی کی حکومت ایک وزراءکی ٹیم بنا سکی ہے اور نہ ہی بیوروکریسی کی ٹیم بنائی جا سکی ہے۔مسلم لیگ نون کی حکومت میں اراکان اسمبلی کو وزیر اعلیٰ کا خوف ہوتا تھا اور فیلڈ افسران کو وہ کم دبائو میں رکھتے تھے لیکن پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو نیا نیا اقتدار ملا ہے ۔

 یہ افسر شاہی کو اپنا نوکر سمجھتے ہیں اور ماضی کی نون لیگ کی طرح افسر شاہی کو ٹرانسفر پوسٹنگ اور بھرتیوں کے معاملات میں بے جا سفارشیں کرتے نظر آتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے دو ڈپٹی کمشنروں نے اعلیٰ حکام کو خط لکھا تھا کہ پی ٹی آئی کے ایم این اے انہیں ہراساں کرتے ہیں اور پٹواریوں کے کام کروانے کےلئے دباﺅ ڈالتے ہیں۔ یہ کام ابھی رکا نہیں۔ پی ٹی آئی کے تمام اور سبھی ارکان اسمبلی اسی کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز ہی پنجاب حکومت نے ایک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی ہے جس میں ریٹائرڈ بیورو کریٹ ، صنعتکار وں کو شامل کیا گیا ہے کہ پنجاب کی گورننس بہتر کرنے کےلئے اقدامات کئے جائیں۔

 اس سے قبل پنجاب میں ایک مکمل اور فل فلیج کابینہ موجود ہے، جو حکومت کو گورننس کی بہتر ی کے لئے اپنی تجاویز دیتی ہے۔ اس سارے عمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت چلانے والے بہت زیادہ ہیں اور کام کرنے والے بہت کم ہیں۔ اس نئی ایڈوائزری کونسل کی تشکیل سے بیوروکریسی میں ایک نئی سوچ پیدا ہوگی کہ پہلے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ سینئر وزیر عبدالعلیم خان، ارباب شہزاد ، ناصر خان درانی، سمیت دیگر لوگ اپنا اپنا ان پٹ دے رہے تھے اور حکومت کو افسر شاہی کے حوالے سے مشاورت دے رہے تھے، لیکن اب ایک ایڈوائزری کونسل بھی بنا دی گئی ہے جو ایک نیا اضافہ ہے۔ بیوروکریسی کو ابھی تک لائن آف ایکشن ہی نہیں مل سکی ہے کہ کس کا حکم مانا جائے اور کس کا نہیں۔ اس طرح یہ ایک بات بیوروکریسی کے حلقوں میں مشہور ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں ایک بہو ہے اور اس کے کئی خاوند ہیں۔ ہرخاوند اپنا مشورہ دیتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اسی کے مشورے پر عمل بھی کیا جائے اور پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت اس وقت مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہے۔ تقرر و تبادلے بے وقت کے ہو رہے ہیں۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب چیف سیکرٹری اور آئی جی پویس کو تقرر و تبادلوں میں فری ہینڈ دیا جائے گا۔

گریڈ 21کے پولیس افسر رائو سردار علی جن کا آئی بی اور فیلڈ کا وسیع تجربہ ہے، انہیں سی سی پی او لاہور یا ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ لگانے کی بجائے ایڈیشنل آئی جی فنانس لگا دیا گیا ہے ۔ صحیح افسر کو صحیح جگہ لگانے سے ہی بہت سارے مسائل اور معاملات ازخود حل ہو جاتے ہیں۔ اعلیٰ پولیس افسران کی بے تکی ٹرانسفر پوسٹنگ کی جا رہی ہے۔آئی جی پولیس امجد جاوید سلیمی کی سفارشات کے الٹ ٹرانسفر پوسٹنگ ہو رہی ہے۔ کے پی کے کا انتظامی ماڈل پنجاب میں پتہ نہیں کب اپنایا جائےگا اور کب آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر کو ٹرانسفر پوسٹنگ سمیت تمام معاملات میں فری ہینڈ ملے گا۔

جب تک چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی ایک ٹیم نہیں بنے گی معاملات درست سمت میں نہیں چلیں گے اور اسی طرح پکڑ دھکڑ اور افراتفری کا عالم رہے گا۔ عمران خان کی حکومت کو وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا عوام میں تاثر بھی بہتر کرنا ہوگا اور ساتھ ساتھ عثمان بزدار کو تمام صوبے کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں فری ہینڈ ملنا چاہئے اور ایک مضبوط وزیر اعلیٰ ہی مضبوط فیصلوں کا متحمل ہو سکتا ہے ۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر