بلڈوزر پالیٹکس تلے کچلےہوئےکشمیر کے حقائق جی 20 کانفرنس سےچھپانا ممکن نہیں

Indian Occupied Kashmir, Sri Nagar, Modi's Bulldozer Politics, Fear and Silence, City42
کیپشن: File Photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: مودی سرکار  کی مخالفوں کے گھر مسمار کر کے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے کی کوششیں خوف پھیلا کر بہت سے کشمیریوں کو خاموش رہنے پر مجبور تو کر چکی ہیں لیکن کیا جی20 کانفرنس کے دوران بھی یہ خاموشی برقرار رہ سکے گی؟ اور کیا جی 20 ممالک کے کشمیر لائے گئے وفود کشمیریوں کی جبر زدہ زندگیوں سے واقعی لاعلم رہیں گے؟  کیا ڈل جھیل کو عام کشمیریوں سے خالی کروا کر اس میں  اتاری گئی خوبصورت کشتیاں جی کانفرنس کے شرکا کو کشمیریوں کے حقیقی مصائب سے لاعلم رکھ سکیں گی؟ یہ سوچ آج کل مقبوضہ کشمیر میں بہت  سے لوگوں کے ذہنوں میں کلبلا رہی ہے۔

مقبوضہ کشمیر سے آنے والی اطلاعات کے مطابق انسداد دہشتگردی کی کاروائیوں کی آڑ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں عروج پر ہیں، مودی سرکار نے بلڈوزر سیاست کو مسلمانوں کے خلاف ایک نیا ہتھیار بنا لیا ہے۔ کشمیر میں اب تک ایک لاکھ دس ہزار سے زائد املاک کو مسمار اور نذرِآتش کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ 4 سالوں میں 2500 سے زائد گھروں کو مسمار اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔

صرف ایک سال 2020 میں فوجی آپریشن کے دوران بھارتی فوج نے 114 گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا، 4 جنوری 2022 کو حریت رہنما شبیر شاہ کے سرینگر میں واقع گھر کو غیر قانونی طور پر قبضے میں لیا گیا جبکہ فروری 2023 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مودی سرکار کے ان اقدامات کو انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیاں قرار دیا۔

 برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق املاک کی مسماری مودی سرکار کی طرف سے کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی گھٹیا کوشش ہے۔

کشمیر میں آج کل یہ سوچا جا رہا ہے کہ کیا کشمیر میں جمع ہونے والے جی20 ممالک کے اراکین بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟

کچھ ہفتے پہلے دی گارڈین نے مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی "بلڈوزر پالیسی"  پر ایک فیچر شائع کیا جس میں مکانات اور دوکانیں بلڈوزر سے مسمار کئے جانے کا نشانہ بننے والے کشمیریوں کی بپتا تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ 

گارڈین نے سری نگر کے موٹر سپئیر پارٹس کی ورکشاپ چلانے والےسہیل احمد شاہ کی ورکشاپ کسی نوٹس کے بغیر بلڈوزر سے گرائے جانے کےواقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھا کہ  سری نگر میں سیکنڈ ہینڈ کار کے پرزے فروخت کرنے والی ان کی ورکشاپ، فروری میں بڑے پیمانے پر انہدام کی مہم میں پھنسنے والے خطے کے درجنوں ڈھانچے میں سے صرف ایک تھی۔ ان میں سے بہت کم لوگوں کو پہلے کوئی نوٹس دیا گیا۔یہ سب لوگ کئی دہائیوں سے اپنی جگہوں پر کام کر رےتھے لیکن اچانک حکومت نے انکی وہاں موجودگی کو غیر قانونی قرار دے ڈالا۔ اس کارروائی کا مقصد  حکومت کے مطابق اس کا مقصد  بظاہر 50,000 ایکڑ سے زائد سرکاری زمن خالی کروانا تھا لیکن کشمیر میں اس مہم کو کشمیریوں کے لئے مذموم مقصد قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی گئی۔ بہت سے لوگوں نے اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندو قوم پرست حکومت کے توسیعی ایجنڈے کا حصہ قرار دیا، جس کا مقصد کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین پر بے گھر اور بے دخل کرنا اور بھارت کی واحد مسلم اکثریتی آبادی کی آبادی کو تبدیل کرنا ہے۔ 

گارڈین کے مطابق 2014 میں مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے، بلڈوزر بی جے پی کے رہنماؤں کے لیے مسلم اقلیت کو نشانہ بنانے کا ایک مقبول ذریعہ رہا ہے تاکہ وہ ہندوستان کو سیکولر ملک کے بجائے ایک ہندو کے طور پر قائم کرنے کے لیے مذہبی قوم پرست ایجنڈے کو آگے بڑھا سکیں۔ اتر پردیش، دہلی، گجرات اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں، مظاہروں میں ملوث ہونے اور مبینہ طور پر غیر قانونی تارکین وطن ہونے کے الزام میں مسلم کارکنوں کے گھروں کو کچلنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا گیا ہے۔

کشمیر کی مقبوضہ ریاست کو  بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی تحفظ سے محروم کرنے کے بعد مودی سرکار کشمیر میں بھی بلڈوزر پالیٹکس لے آئی تو کشمیر بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا کہ بی جے پی کی نام نہاد ’’بلڈوزر سیاست‘‘اب کشمیری مسلمانوں کے خلاف چلائی جارہی ہے۔ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کشمیریوں کی دوکانیں، ورکشاپیں اورر گھر گرائے جانے کی مہم کو "لوگوں کو ان کے گھروں اور معاش کو مسمار کر کے معاشی پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی ایک چال" قرار دیا۔

عام کشمیریوں نے ہر دستیاب فورم پرکہا کہ یہ سب کشمیریوں کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

1947 میں آزادی کے بعد سے، کشمیر کا خطہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تناو کا باعث متنازعہ علاقہ رہا ہے۔ اس متنازعہ علاقے پر کنٹرول کے لیے متعدد بار جنگ ہو چکی ہے، کشمیر اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تقسیم ہے۔ ہندوستان کی طرف ریاست جموں و کشمیر تھی جہاں 1990 کی دہائی کے اوائل سے پاکستان کی اخلاقی امداد کے ساتھ ایک پرتشدد علیحدگی پسند بغاوت ابھری۔

یکے بعد دیگرے حکومتوں نے تشدد پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن اگست 2019 میں مودی حکومت نے اپنے دائیں بازو کے ہندوتوا پرست ووٹروں کو اپنی طاقت سےمتاثر کرنے کے لئے مقبوضہ ک ریاست کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی، اس کی بھارتی  آئین میں دی گئی خودمختاری کو چھین لیا اور اسے مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول دو علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ مزید ہزاروں فوجیوں کو ریاست میں تعینات کر دیا، ریاستی حکومت کو تحلیل کر دیا، مقامی سیاستدانوں کو قید کر دیااور انٹرنیٹ بند، جو 18 ماہ تک بند رہا۔

تب سے بی جے پی نے ریاست کے دروازے بھارت بھر سے آنے والے آباد کاروں کے لئے کھول دیے ہیں،  باہر کے لوگوں کو جائیداد خریدنے اور پہلی بار کشمیر میں ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹر کرنے کی اجازت دے دی۔ 20 لاکھ سے زیادہ نئے ووٹروں کا اندراج کیا گیا ، جوکشمیریوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مودی حکومت ریاست کی آبادی میں اس کی موجودہ مسلم اکثریت سکو اقلیت میں بدلنا چاہتی ہے۔

نام نہاد انتخابی حلقوں کی دوبارہ ترتیب سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ نو تشکیل شدہ امتخابی حلقوں میں بی جے پی کے ممکنہ انتخابی فائدے کے لیے کشمیر مسلم ووٹوں کو تقسیم کای گیا ہے۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ 2019 سے اس کے اقدامات سے کشمیر میں امن کا دور آیا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک تقریر میں کہا، ’’سرمایہ کاری آرہی ہے اور سیاحوں کی آمدورفت ہورہی ہے۔ "کشمیر باقی ملک کے ساتھ مل جل کر کھڑا ہونے کے لیے آہستہ آہستہ معمول پر آ رہا ہے۔"

لیکن ریاست میں رہنے والے کشمیری ایک بہت ہی مختلف کہانی سناتے ہیں – بڑھتے ہوئے آمرانہ قوانین کے تحت منظم جبر  کے زریعہ آزادی اظہار، سیاسی نمائندگی اور احتجاج کے حق سمیت جمہوری آزادیوں کو کچل دیا گیا ہے۔ کشمیر اب دنیا کے سب سے زیادہ فوجی علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں سڑکوں پر ہر چند میل کے فاصلے پر فوجی چوکیوں کے ساتھ، صرف 70 لاکھ شہریوں پر نظر رکھنے کے لیے نصف ملین سے زیادہ فوجی ہیں۔

ریاست میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ سینسر شپ، عام شہری اور میڈیا دونوں کے لئے سنسر شپ، زبان بندی کشمیر میں معمول ہےاور جو کوئی بھی سرگرمی کے ذریعے یا سوشل میڈیا پر تنقید کا اظہار کرتا ہے، پولیس اسے فوری طور پر گرفتار کر لیتی ہے۔

 کشمیر میں زیادہ تر  لوگ عوامی سطح پر بولنے سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ڈر کا ہر طرف  راج ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اگر کوئی بات کرتا ہے تو اسے پولیس کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی جیل میں نہیں جانا چاہتا ۔

مقبوضہ کشمیر میں کام کرنےوالےصحافی مودی سرکار کا  خاص ہدف بن چکے ہیں۔ ان کی رپورٹنگ کو سختی سے کنٹرول کرنے کے لیے نئے قوانین منظور کیے گئے، اور وہ چند صحافی جنہوں نے اب بھی اس خطے کی تنقیدی کوریج کی، انہیں ہراساں اور پوچھ گچھ کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے فون اور لیپ ٹاپ ضبط کر لیے گئے۔

کئی واقعات میں پولیس نے صحافیوں کو سرعام مارا پیٹا ۔ جبکہ کچھ کو نو فلائی لسٹ میں ڈال دیا گیا ہ۔ انہیں ملک چھوڑنے سے روک دیا گیا ۔ مقامی اخبارات میں ایڈیٹرز اور مالکان نے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سےایسی تمام کوریج کو بند ہی کر دیا ہے جو حکومت کے لیے تنقیدی ہو سکتی ہے۔  آزاد اخبارات کو سرکاری پریس ریلیز کے لیے پمفلٹ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ کم از کم تین کشمیری صحافیوں آصف سلطان، فہد شاہ اور سجاد گل کو دہشت گردی کے قوانین کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔

سجاد گل کو ایک ہائی سیکورٹی سیل میں رکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ ایک خطرناک مجرم جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اسے گھر پر فون کال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔  اسے قلم اور ڈائری تک نہیں ہونے دی۔ایسا ہی سلوک دوسرے گرفتار صحافیوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے مسلسل جبر سہہ رہےعوام یہ جاننے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں کہ جی 20 ممالک کے جو  وفد مودی حکومت کو خوش کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو فراموش کر کے گلمرگ میں اجلس منعقد کرنے کے لئے آ رہے ہیں کیا وہ جانتے ہیں کہ اس خوبصورت سرزمین کے اصل مالکوں کو کس کس طرح کچلا اور دبایا جا رہا ہے، صرف اس لئے کہ وہ اپنا پون صدی سے سلب کیا ہوا حق خود ارادیت مانگتے ہیں۔