افسران کی کارکردگی ، وزیراعظم کا نوٹس

افسران کی کارکردگی ، وزیراعظم کا نوٹس
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) سرکاری افسران کے عوامی شکایات کو بروقت حل نہ کرنے کا وزیر اعظم نے نوٹس لیا ہے اور غیر سنجیدہ موثر کارکردگی نہ دکھانے والے سرکاری افسران کے خلاف ایکشن شروع کیا گیا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک نے ماتحت 1586 افسران کے ڈیش بورڈ کی جانچ پڑتال مکمل کر لی ہے اور وزیر اعظم پر فارمنس ڈیلیوری یونٹ کی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کر دی گئی ہے ۔ دو سو تریسٹھ افسران جو کارکردگی کی بنیاد پر وارننگ سات سرکاری افسران کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ 833افسران کو محتاط رہنے کی ہدایت اور 111افسران سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے 403 افسران کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ 

پنجاب کے سیکرٹری زراعت ، سیکرٹری ایکسائز ، اور سیکرٹری آبپاشی کو کارکردگی بہتر کرنے کا مراسلہ لکھا گیا ہے۔ ڈی سی لاہور ، گجرات ، شیخوپورہ، سمیت پنجاب کے بیس ڈی سیز کو مراسلے جاری کئے گئے ہیں۔ اسی طرح متعدد اے سیز کو بھی وارننگ نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ یہ کام وزیر اعظم ہاوس نے کیا ہے اور افسران کی کارکردگی کو مانیٹر کیا ہے، حالانکہ یہ کام پنجاب سول سیکرٹریٹ اور چیف سیکرٹری آفس کو کرنا چاہیئے، کہ کون افسر فیلڈ میں کام کر رہا ہے اور کون نہیں کر رہا ہے ۔کس افسر کی کارکردگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور کس افسر کی کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ ایک طرح سے وزیر اعظم نے پنجاب حکومت کے تمام معاملات سنبھال لئے ہیں۔

  وزیر اعظم گا ہے بگا ہے لاہور آتے ہیں اور وزیر اعلی اور کابینہ کی بھی کارکردگی کو چیک کرتے ہیں۔ یہ عمل پنجاب حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے ،کہ پنجاب حکومت صحیح طرح سے عوام کو ڈیلیور نہیں کر رہی ۔ وزیر اعلی کی کابینہ اور افسر شاہی پر گرفت کمزور ہے اور اس وقت پنجاب کی افسر شاہی ایک بے لگام گھوڑے کی طرح سے کام کر رہی ہے، کسی کو پتہ نہیں کہ پنجاب کی افسر شاہی کو کون چلا رہا ہے اور کس کا حکم مانا جا رہا ہے ۔ 

تحصیلوں کے اے سیز اختیارات نہ ہونے کا ڈھنڈوراپیٹتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں لیکن حکومت ان سے ہر کام لے رہی ہے۔ سبزی منڈی سے ناجائز تجاوزات کے خاتمہ تک تمام کام لئے جا رہے  ہیں۔ اب ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب ارم بخاری نے تمام اسسٹنٹ کمشنروں کی کارکردگی کو پر کھنے کیلئے ایک ایپ لانچ کر دی ہے، لیکن اس سے بہتر ہوتا کہ اے سی کو رولز میں ترامیم کر کے اختیارات بھی دیئے جاتے ۔جنوبی پنجاب سیکرٹری کو فعال کرنے کیلئے بھی ابھی تک رولز آف بزنس میں ترمیم نہیں ہو سکی۔ جس سے جنوبی پنجاب کے سیکرٹریوں کو اختیارات نہیں مل سکے اور جنوبی پنجاب کے سائلین اور افسران پریشان ہیں کہ وہ کیا کریں اور کس کا حکم مانیں ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ افسران کو شو کاز نوٹس دینے سے قبل ان کے مسائل بھی سنے جاتے ۔

پنجاب حکومت جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو فعال کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے اور جنوبی پنجاب سیکرٹری جانے والے افسران اختیارات نہ ملنے اور رولزا ف بزنس میں ترمیم نہ ہونے پر ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں اور سائلین کبھی لاہور لاہور سیکرٹریٹ اور کبھی جنوبی پنجاب سیکرٹری کے چکر لگاتے ہیں۔ وزیر اعظم کو یہ بھی چایئے کہ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک کو بھی فری ہینڈ دیں اور انہیں اختیارات دیں تاکہ وہ بہتر طور پر کام کر سکیں ۔ چیف سیکرٹری آفس کے تمام اختیارات ایوان وزیر اعلی استعمال کر رہا ہے جس سے افسر شاہی بے لگام ہو گئی ہے۔

 سابق چیف سیکرٹری پنجاب جاوید محمود اور ناصر محمود کھوسہ کے دور یں بیوروکریسی پر چیف سیکرٹری آفس کا ایک ہولڈ ہوتا تھا جو کہ اب نہیںرہا ہے۔ اگر سیاسی طور پر اے سی اور ڈی سی اور ڈی پی او لگائے اور ہٹائے جائیں گے تو کارکردگی کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم کو سب سے پہلے اپنے اراکان اسمبلی کو بھی لگام دینا ہو گی کہ وہ پنجاب حکومت کے انتظامی معاملات میں مداخلت نہ کریں جب تک میرٹ پر افسران کو تعینات نہیں کیا جائے گا اور سہی سیٹ پر سہی افسر کو تعینات نہیں کیا جائے گا اس وقت تک افسران کی کاکردگی بہتر نہیں ہو سکتی ہے۔ 

کیا وجہ تھی کہ سابق دور یں بیوروکریسی ڈیلیو کر رہی تھی کیونکہ اس وقت بیوروکریسی پر اتنا دباو نہیں تھا جتنا کہ اب ہے اور اس وقت بہت سارے کام میرٹ پر بھی ہو جاتے تھے۔ اور میاں شہباز شریف کا وزراء اور بیوروکریسی پر مکمل ہولڈ تھا جو کہ اب وزیراعلیٰ کا نہیں ہے۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر