(ملک اشرف)لاہور ہائیکورٹ میں منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار میاں شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست پر سماعت۔تین رکنی ریفری بنچ کا نیب پراسکیوٹر کو کل دلائل دینے کی ہدایت کردی۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں تین رکنی ریفری بنچ نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔نیب کی طرف سے سپیشل پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری جبکہ درخواستگزار شہباز شریف کی طرف سے اعظم نذیر تارڑاور امجد پرویز ایڈوکیٹ پیش ہوئے۔
اعظم نذیر تارڈ ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ قانون کے مطابق ریلیف دیا گیا تھا، ضمانت دی گئی 3 دن گزرنے کے باوجود ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر ضمانت منظوری کا رزلٹ ظاہر ہوتا رہا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے اعظم نذیر تارڈ ایڈوکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کے کیلئے ایک سبق ہے کہ آپ مصدقہ نقل لینے کے بعد یقین کریں، اعظم نذیر تارڈ بولے ضمانت کا حکم سننے کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکم تبدیل ہو جائے، جسٹس علی باقر نجفی نے کہا آپ جب تک تحریری حکم نہ حاصل کر لیں تب تک اپنے کلائنٹ کو نہ بتائیں کہ ضمانت منظور ہوئی ہے۔ ہمیں بطور ریفری جج کے طور پر کیس کی سماعت کیلئے نامزد کیا گیا ہے، آپ کیس کو شروع سے بتانا شروع کریں کیونکہ ہمیں کیس حقائق کا علم نہیں۔
اعظم نذیر تارڈ ایڈوکیٹ نے کہا ہم شہباز شریف کی ضمانت کو از سر نو سماعت والی سطح پر نہیں جانا چاہتے، جسٹس علی باقر نجفی نے کہا ہم اس کیس سے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے، کم از کم ہمیں کیس کے حقائق تو بتائیں، امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 1994ءکے فیصلے میں ایک ہی بنچ کے 2 ججز کے فیصلے میں اختلاف پر اصول طے کیا گیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ججز کے فیصلے میں اختلاف پر ضمانت کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ججز نے شہباز شریف کی ضمانت پر اختلاف کرتے ہوئے پوائنٹس نہیں بنائے۔
نیب وکیل بولے پوائنٹس بنانے کا معاملہ اتنا اہمیت کا حامل نہیں ہے، اعظم نذیر تارڈ ایڈوکیٹ نے کہا یہ از سر نو سماعت کا کیس نہیں اور نہ ہی یہ اپیل کی سطح کی عدالت ہے،، جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیااس کیس میں کتنے پراسکیوشن کے گواہ مکمل ہو چکے ہیں، نیب وکیل نے جواب دیا 110 میں سے 10 گواہوں کے بیانات مکمل کئے گئے ہیں۔
اعظم نذیر تارڈ ایڈوکیٹ نے جواب دیا اس مقدمہ میں 110 گواہ ہیں اور کسی بھی گواہ نے شہباز شریف کو نامزد نہیں کیا، 4 وعدہ معاف گواہوں میں سے کسی نے بھی شہباز شریف کو نامزد نہیں کیا، امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہاوعدہ معاف گواہوں کے بیانات قلمبند کرواتے ہوئے ملزم کو جرح کا حق نہیں دیا گیا، اعظم نذیر تارڈ ایڈووکیٹ نے کہاایک وعدہ معاف گواہ نے اپنے بیان میں محض شہباز شریف فیملی کا ذکر کیا ہے، عدالتی حکم پر نیب پراسکیوٹر نے وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پڑھ سنا ئے اور کہا شہباز شریف نے بے نامی دار جائیدادیں بنائیں، سلمان شہباز اور اہلخانہ شہباز شریف کے بے نامی دار تھے، ملزم کے بیٹے سلمان شہباز نے اپنے ذرائع آمدن نہیں بتائے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے نیب پراسکیوٹرسے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سلمان شہباز کو شامل تفتیش نہیں کیا؟ نیب وکیل نے جواب دیاسلمان شہباز عدالتی مفرور ہے، شہباز شریف 1990 سے پبلک آفس ہولڈ کر رہے ہیں، امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا سارے خاندان کے اثاثوں کو شہباز شریف پر ڈال دیا گیا، شہباز کی 4 مربع زمین لاہور میں واقع ہے، نیب نے شہباز شریف کی 4 مربع زمین کی سالانہ آمدن 1 لاکھ روپے لگائی اور غلط حساب لگایا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا بے نامی ٹرانزیکشن کو ثابت کرنے کیلئے کیا پیرا میٹرز ہوتے ہیں، امجد پرویز ایڈوکیٹ نے جواب دیا بے نامی دار کا الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری پراسکیوشن کی ہوتی ہے، ایک بھی ٹیلی گرافک ٹرانسفر شہباز شریف کے نام پر نہیں آئی،گرفتاری کے دوران شہباز شریف سے الزامات کے مطابق جائیداد کی دستاویزات برآمد نہیں ہوئیں، شہباز شریف نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔
جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ دھیلا دیکھا ہے کبھی آپ نے؟ جسٹس علی باقر نجفی کے استفسار پر کمرہ عدالت میں قہقہہ بھی لگا۔اعظم نذیر تارڈ ایڈوکیٹ نے کہا ٹرائل کورٹ تو سپریم کورٹ میں رپورٹ دے چکی ہے کہ منی لانڈرنگ کا کیس 10 سے 12 ماہ میں مکمل ہو گا،ٹرائل کورٹ کے جج متبادل کے بغیر ٹرانسفر کر دیئے گئے ہیں۔منی لانڈرنگ ریفرنس میں تحقیقات مکمل ہونے کے بعد جیل میں قید رکھنا بلاجواز ہے، 7 ماہ سے زیر حراست ہیں شریک ملزم پہلے ہی ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔تین رکنی بنچ نے سماعت 22 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے نیب وکیل کو دلائل دینے کی ہدایت کردی۔