سٹی42: غزہ میں اسرائیل کی فوج پیش قدمی کرتے ہوئےزیتون، جبالیہ میں منتقل ہو گئی، ہفتہ کی شام اسرائیل کی فوج نے بتایا کہ غزہ مین اس کے مزید 6 فوجی مارے گئے ہیں اور اب غزہ جنگ میں مرنے والے فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 56 تک پہنچ گئی۔
غزہ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر اسرائیلی بمباری، مزید 200 فلسطینی شہید
غزہ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں مزید 200 فلسطینی شہید ہوگئے۔ اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فوج نے جبالیہ کیمپ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر فضائی حملہ کیا۔ غزہ کےحکام کا کہنا ہےکہ اقوام متحدہ کے اسکول پر اسرائیلی بمباری سے 200 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق اسکول میں ہزاروں فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ غزہ میں فلسطین کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فورسز نے جبالیہ کیمپ میں رہائشی عمارت پر بھی حملہ کیا، اسرائیلی بمباری سے ایک ہی خاندان کے 32 افراد شہید ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں الشفا اسپتال کا گھیراؤ اور تلاشی جاری ہے۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہےکہ بجلی بند ہونے سے 24 گھنٹے کے دوران اسپتال میں 24 مریض انتقال کرگئے، الشفا اسپتال میں 11 نومبر سے اب تک بجلی بند ہونے کے باعث قبل ازوقت پیدائش والے 4 بچوں سمیت 40 مریض انتقال کرچکے ہیں۔
شفا ہسپتال سے مریضوں اور طبی عملہ کی منتقلی
اسرائیل کے میڈیا کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ غزہ میں شفا ہسپتال میں محصور مریضوں، پناہ گزینوں اور طبی عملہ میں سے زیادہ تر وہاں سے نکل کر جنوبی غزہ میں دوسرے مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع کا جنوبی غزہ میں بھی جانے کا اعلان
اسی دوران اسرائیل کی جنگی کابینہ کے وزیر دفاع گیلانت کا کہنا ہے کہ آئی ڈی ایف جلد ہی غزہ کے جنوب میں چھپے حماس کے کارکنوں تک پہنچ جائے گی۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے ایک پرائم ٹائم پریس کانفرنس میں کہا کہ IDF پٹی میں حماس کو سخت نشانہ بنا رہا ہے اور اسرائیل غزہ کے جنوب میں بھی جلد آپریشن کرے گا۔
گیلانت کا کہنا تھا کہ ابھی"ہم زمینی حملے کے دوسرے مرحلے میں ہیں، غزہ پٹی کے مشرق میں بھی کام کر رہے ہیں۔ گیلانت نے مزید کہا کہ "حماس کو شدید نقصان پہنچا ہے، وہ سرنگوں، بنکروں، چوکیوں کو کھو رہی ہے،" اور اس کے کئی سینئر کمانڈر مارے جا چکے ہیں۔ ’’ہم حماس کے لیے حساس تمام مقامات پر پہنچ رہے ہیں اور انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ انہوں نے یرغمالیوں کو گھر واپس لانے سے بڑھ کر ان کے لئےکوئی ترجیح نہیں ہے۔"میرے خیال میں حماس یرغمالیوں کے خاندانوں اور اسرائیلی عوام کے جذبات سے کھیل رہی ہے،" وہ کہتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ جنگی کابینہ انہیں گھر لانے کے اپنے عزم میں متحد ہے۔
جنگ بندی کیلئے شدید دباؤ ہے، نیتن یاہو کا اعتراف
دوسری جانب اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو ک نے آج تسلیم کیا ہے کہ غزہ میں جنگ روکنے کے لیے شدید بین الاقوامی دباؤ ہے، نیتن یاہو نے غزہ مین ایندھن کے داخلے کی اجازت دینے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے خلاف شدید بین الاقوامی دباؤ ہے۔
غزہ میں ایندھن کی سپلائی کی اجازت دینے کے خلاف عوامی غصے کا جواب دیتے ہوئے بظاہر اس بات کا جواب دیتے ہوئے نیتن یاہو نے غزہ میں زمینی حملے ار شفا ہسپتال میں داخلے سمیت ان تمام اقدامات کا ذکر کیا جو انہیوں نے شدید بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کئے ہیں۔
یاہو کا کہنا تھا کہ میں دنیا کو بتا رہا ہوں، ہم حماس کے تباہ ہونے تک لڑتے رہیں گے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حماس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے غزہ کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی اجازت دینا بہت ضروری ہے، اس کے بغیر اسرائیل کی فوجی مہم کے لیے بین الاقوامی حمایت کم ہوگی۔
یرغمالیوں کی واپسی کے مذاکرات معطل
ہفتہ کی شب اسرائیلی میڈیا نے سرکاری حکام کے حوالے سےیہ اطلاع بھی دی کہ غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں۔تاہم ایک نامعلوم اسرائیلی اہلکار نے دعویٰ کیا ہے کہ فوجی دباؤ حماس کو معاہدے کی طرف دھکیل رہا ہے۔
رپورٹس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں قید تمام بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی ماؤں کو بھی رہا کرنے کے اپنے مطالبے پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔
یرغمالیوں کی ایک قابل ذکر تعداد کے ساتھ معاہدے کی خبریں ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے گردش کر رہی ہیں لیکن ایک ماہ سے کسی بھی قیدی کو رہا نہیں کیا گیا۔
یرغمالیوں کے رشتہ داروں کا مارچ یروشلم پہنچ گیا
تل ابیب سےپانچ روز پہلے روانہ ہونے والا احتجاجی مارچ ہفتہ کی شام یروشلم پہنچ گیا۔ حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہزاروں افراد نے ہفتہ کو مارچ کیا اور شام کے وقت یروشلم پہنچ گئے۔ پولیس کی جانب سے فوری طور پر اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا کہ کتنے لوگ یروشلم کی طرف مارچ کر رہے تھے، تاہم احتجاج کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں دارالحکومت کی طرف پیدل چل رہے تھے۔ چینل 12 نیوز نے کہا ہے کہ تقریباً 30,000 مارچ کر رہے تھے۔اس مارچ کے شرکا کابینہ کے وزیروں سے ملاقات کر کے ان سے جاننا چاہتے ہیں کہ وہ یرغمالیوں کی جلد واپسی کیلئے کیا کر رہے ہیں اور اصل صورتحال کیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ کی احتجاجی مارچ میں شمولیت
تل ابیب سے آنے والےاحتجاجی مارچ کے شرکا ہفتہ کی سہ پہر یروشلم کے نزدیک پہنچے تو مارچ کرنے والوں کے ساتھ اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ بھی شامل ہوگئے۔
احتجاجی مارچ سہ پہر 3 بجے دارالحکومت میں داخل ہوا۔ تقریباً 4 بجے وزیر اعظم آفس کے سامنے احتجاج شروع ہو گیا۔
جیسے ہی مارچ کرنے والے دارالحکومت میں داخل ہوئے، ان کا استقبال شہر کے مکینوں نے کیا جن کے ہاتھ میں پیلے رنگ کے غبارے تھے جن پر لکھا ہوا تھا "یرغمالیوں کو گھر لاؤ۔"
احتجاج کے اختتام پر، بہت سے خاندان تل ابیب واپس گئے اور جنگی کابینہ کے وزیر بینی گینتز اور کابینہ کے مبصر وزیر گیڈی آئزن کوٹ سے ملاقات کی۔ وہ پیر کو وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنت سے ملاقات کریں گے۔
گیلانت کی غزہ سے باہر موجود حماس قیادت کو دھمکی
ہفتہ کی شام اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوایو گیلانت نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حماس کے تمام ارکان خواہ وہ غزہ کی پٹی سے باہر ہیں۔ وہ اب خود کو مرا ہوا سمجھیں۔
گیلانت نے حماس کی قطر میں مقیم رہنما اسماعیل ہنیہ کا نام لئے بغیر کہا کہ "کلاشنکوف والے دہشت گرد اور تھری پیس سوٹ والے دہشت گرد میں کوئی فرق نہیں ہے"، حماس کے سربراہ ہنیہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قطر میں مقیم ہیں۔