سٹی42؛ عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر معاملے پر دفعہ 164 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ۔ اپنے اعترافی بیان میں اعظم خان نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ’ سائفر کو غلط رنگ دے کر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا‘۔
عمران خان کےسائفر معاملے میں کتنی سچائی ہے، اس امر کی تحقیقات جاری جاری ہیں۔ زرائع کا کہنا ہے کہ سائفر معاملے میں عمران خان کیخلاف تحقیقات اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔
زرائع کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ 8 مارچ 2022 کو سیکرٹری خارجہ نے محمد اعظم خان سے رابطہ کیا اور سائفر کے حوالے سے آگاہ کیا۔ جسے اسی شام ان کی رہائش گاہ پر روانہ کر دیا گیا۔ سیکرٹری خارجہ نے اعظم خان کو بتایا کہ وزیر خارجہ قریشی پہلے ہی عمران کے ساتھ سائفر پر بات کر چکے ہیں جس کی تصدیق عمران خان نے اگلے روز اس وقت کی جب محمد اعظم خان نے انہیں سائفر پیش کیا۔ سائفر کو دیکھ کر عمران خان نے خوشی کا اظہار کیا اور اس زبان کو US بلنڈر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے خلاف بیانیہ تیار کرنے کے لیے سائفر کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اعظم خان کے بیان کے مطابق عمران خان نے محمد اعظم خان کو یہ بھی بتایا کہ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک میں غیر ملکی شمولیت کی طرف عام لوگوں کی توجہ دلانےکے لیے سائفر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد عمران خان نے محمد اعظم خان سے سائفر ان کے حوالے کرنے کو کہا، جو انہوں نے کر دیا۔ (کرپٹو دستاویزات کے حوالے کرنے کے لیے ہدایات اور ضابطے موجود ہیں، بظاہر یہاں خلاف ورزی ہوئی تھی)۔
محمد اعظم خان کے اعتراف کے مطابق، سائفر کاپی عمران خان نے اپنے پاس رکھی اور اگلے دن (10 مارچ 2022) جب انہوں نے اسے مانگا تو عمران خان نے جواب دیا کہ ان سے گم ہو گیا ہے (یہاں عمران خان کا ویڈیو کلپ شامل کر سکتے ہیں جہاں وہ کہتے ہیں وہ نہیں جانتا کہ سائفر کاپی کہاں ہے)۔
محمد اعظم خان نے اعتراف کیا کہ عمران خان نے ان سے کہا تھا کہ وہ اسے عوام کے سامنے پیش کریں گے اور اس بیانیے کو توڑ مروڑکر پیش کریں گے کہ مقامی شراکت داروں کی ملی بھگت سے غیر ملکی سازش رچائی جا رہی ہے ۔اس پر محمد اعظم خان نے مشورہ دیا کہ سائفر ایک خفیہ کوڈڈ دستاویز ہے اور اس کے مواد کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا اور اس کے بعد وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ سے باضابطہ ملاقات کی تجویز دی جہاں وہ MOFA کی کاپی سے سائفر پڑھ سکتے ہیں (کیونکہ عمران خان کی اصل کاپی ابھی تک گم تھی)۔ اور میٹنگ کے منٹس سے مزید فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
28مارچ 2022 کو اجلاس بنی گالہ میں منعقد ہوا، جہاں سیکرٹری خارجہ نے وزارت خارجہ کی ماسٹر کاپی کا سائفر پڑھ کر سنایا اور اجلاس کے تمام مباحث اور فیصلوں پر غور کیا گیا اور اس معاملے کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
30 مارچ 2022 کو کابینہ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا، جہاں وزارت خارجہ کے نمائندے نے دوبارہ سائفر پڑھا اور کابینہ کو بریفنگ دی۔ اس پر بھی منٹ ہو گئے۔ اس معاملے کو قومی سلامتی کمیٹی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
31 مارچ 2022 کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جہاں مذکورہ بالا عمل کو دوبارہ دہرایا گیا اور قومی سلامتی ڈویژن کی طرف سے اس پر غور کیا گیا۔
محمد اعظم خان کے مطابق وزارت خارجہ سے موصول ہونے والے تمام سائفرز جے JS FSA (وزیراعظم کے دفتر میں وزارت خارجہ کے نمائندے) کو واپس کردیئے گئے ہیں، تاہم، جب تک وہ پرنسپل سیکریٹری تھے، وزیراعظم عمران خان کا کھویا ہوا سائفر واپس نہیں کیا گیا۔ کیونکہ عمران خان نے اسے کھو دیا تھا اور بار بار کہنے کے باوجود واپس نہیں کیا۔
اعظم خان کے میجسٹریٹ کے روبرو دفعہ 164 کے بیان کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ کیا عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان وعدہ معاف گواہ بننے جا رہے ہیں؟ کہا جا رہا ہے کہ اعظم خان کے میجسٹریٹ کے روبرو دفعہ164 کے تحت بیان سے سائفر معاملے میں عمران خان کیخلاف تحقیقات اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔
اب تک سامنے آنے والے حقائق سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے امریکا میں متعین پاکستانی سفیر کے بھیجے ہوئےسائفرکو توڑ مروڑ کر عوام کے سامنے پیش کیا اور اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا اور دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے حالانکہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کے متعلق کر پی ٹی آئی حکومت کے دعووں کی تردید کر دی گئی تھی۔
سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نےسائفر کے حوالہ سے چئیرمین پی ٹی آئی کے دعووں کے بعد کہا تھا سائفر پر ڈرامائی انداز میں بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی اور افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جن کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔
بعد میں سائفر کے حوالہ سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک سامنے آئی تھی جس میں عمران خان کو یہ کہتے سنا گیا تھا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر پرایک میٹنگ کر لیتے ہیں‘۔
بعد ازاں نئی حکومت کی وفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کیا تھا۔
اعظم خان پی ٹی آئی کی حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریبی معاون شمار ہوتےتھے۔