ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

میرا نام کہاں ہے؟

میرا نام کہاں ہے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42: افغانستان میں یہ مسئلہ بچی کے جنم سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور اسے اپنا نام یا شناخت حاصل کرنے میں ایک عمر لگتی ہے۔ ملک میں جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اس کی شادی کے دعوت نامے پر بھی اس کا نام نہیں لکھا جاتا۔ جب وہ بیمار ہوتی ہے تب بھی اکثر اس کے ڈاکٹری نسخے پر اس کا نام درج نہیں ہوتا۔حتیٰ کہ جب اس کا انتقال ہو جاتا ہے تب بھی اس کی موت کے سرٹیفیکٹ پر یا اس کی قبر کے کتبے پر اس کا نام نہیں لکھا جاتا۔اسی لیے افغانستان میں کچھ خواتین ’میرا نام کہاں ہے؟‘ نامی مہم کے ذریعے اپنے نام کے آزادانہ استعمال کے لیے جدو جہد کر رہی ہیں۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شمالی افغانستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون تیز بخار کی علامات کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئی، ڈاکٹر نے اس میں کورونا وائرس کی تشخیص کی تو وہ شدید درد اور بخار کے ساتھ واپس گھر آئی اور اس نے ڈاکٹر کا نسخہ اپنے شوہر کو دیا تاکہ وہ اسے دوائی لا دے۔لیکن جب اس کے شوہر نے ڈاکٹر کے نسخے پر اپنی بیوی کا نام دیکھا تو وہ غصے میں آ گیا اور اس نے اپنی بیوی کو ایک انجان آدمی پر اپنا نام ظاہر کرنے کی پاداش پر پیٹ ڈالا۔

واضح رہے کہ افغانستان میں یہ کہانیاں نئی نہیں ہیں۔ یہاں مقامی معاشرے میں عورت کا نام استعمال کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور افغانستان کے بہت سے علاقوں میں اسے بے عزتی کے طور تصور کیا جاتا ہے۔بہت سے افغان مرد سرعام اپنی بہنوں، بیویوں یا ما ئوں  کا نام پکارنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے اور کتراتے ہیں کیونکہ یہ باعث شرم اور غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان کے قانون کے مطابق کسی بھی خاتون یا لڑکی کے پیدائش کے سرٹیفیکٹ پر صرف اس کے باپ کا نام درج کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے’’یہ ایسے نہیں چل سکتا’ وہ نعرہ تھا جو ایک 28 سالہ افغان خاتون کی جانب سے تین برس قبل سامنے آیا تھا۔ جب لیلہٰ عثمانی نامی خاتون جن کا تعلق بھی اسی ہرات صوبے سے ہے اپنے معاشرے میں اس فرسودہ رواج سے اکتا گئیں تو انھوں نے میرا نام کہاں ہے؟ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد معاشرے میں خواتین کو ان کا بنیادی حق واپس دلانا تھا۔لیلہٰ اور ان کی ساتھی افغان خواتین سے یہ سوال پوچھنا چاہتے تھے کہ انھیں ان کی شناخت سے محروم کیوں رکھا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ مہم اپنے مقصد کی جانب ایک قدم بڑھ رہی ہے اور اب لوگ افغان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ بچوں کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ پر ماں اور باپ دونوں کا نام درج کیا جائے۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer