جمال الدین : جنات سے ڈرا کر بائیس سالہ کنیز فاطمہ کے ساتھ سوتیلے باپ کی زیادتی، پولیس نے ملزم کو ماڈل ٹاؤن کچہری میں پیش کیا ، عدالت نے ملزم کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا.
تفصیلات کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ محمد فضل الہی نے کیس پر سماعت کی متاثرہ لڑکی کے باپ کی مدعیت میں تھانہ کوٹ لکھپت میں مقدمہ درج کیا۔ مدعی وحید اشرف کا کہنا تھا میری سابقہ بیوی نے مجھ سے علیحدگی کے بعد ملزم زوہیب شاہ کے ساتھ شادی کی، زوہیب شاہ نے میری بیٹی کے ساتھ زیادتی کی۔ مدعی کا کہنا تھا ملزم نے میری بیٹی کو جنات سے مروانے کی دھمکیاں بھی دیں۔
مدعی نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالت ملزم کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرے۔ عدالت نےوکیل کے دلائل سننے کے بعد ملزم زوہیب شاہ کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے کا حکم سنا دیا۔
دوسری جانب بچوں کیساتھ زیادتی کیسز میں پولیس کی دلچسپی دکھاوا ثابت ہوتی نظر آرہی ہے، 79فیصد کیسز میں خواتین تفتیشی ہی موجود نہیں، پولیس کی جانب سے دعوی کیا جاتا ہے کہ کم عمر بچوں کےساتھ زیادتی کے کیسز میں بروقت اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اعدادوشمار نے کم عمربچوں کے ساتھ زیادتی کیسز میں پولیس کی دلچسپی، دعوؤں اورسنجیدگی کا پول کھول دیا ہے۔جس کی وجہ سے کم عمربچوں کے ساتھ زیادتی کیسز دن بدن بڑھنے لگے ہیں۔ خبروں میں آنے والے کیسز پہ افسروں کی توجہ ہوتی ہےجبکہ باقی کیسز میں ڈی ایس پی بھی توجہ نہیں دیتے۔
پولیس اعداد و شمارکے مطابق 79فیصد کیسز میں خواتین تفتیشی ہی موجود نہیں جبکہ خواتین اوربچیوں کے کیسزمیں خاتون تفتیشی کا موجود ہونا سٹینڈنگ آرڈرکےذریعے لازمی قرار دیا گیا ہے۔61فیصد کیسزمیں 48گھنٹوں تک ڈی این اے سیمپلزنہیں لئے جاتے۔ بروقت ڈی این اے سیمپلز نہ لینے کی وجہ سےشواہد ضائع ہوجاتے ہیں اورکیسزحل نہیں ہوپاتے جبکہ اکثر اہم کیسز ڈی این اے کےذریعے ہی حل ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں 67 فیصد کیسزمیں ڈی ایس پیز کیس ڈائری نہیں لکھتے جبکہ 58فیصدمیں کرائم سین کادورہ کرکے رجسٹر میں رپورٹ نہیں لکھی جاتی۔ گزشتہ سال لاہورکے 230 سمیت صوبہ بھرمیں 14سو سے زائد کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔