سندھ کے متوقع وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کیرئیر کا آغاز  لاہور سے کیا

Bilawal Bhutto, Murad Ali Shah, Sindh Chief Minister, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: سندھ  کے وزیرِ اعلیٰ کی مسند پر تیسری مرتبہ جلوہ افروز ہونے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے منتخب کئے گئے مراد علی شاہ بیک وقت انجینئیر اور مالیاتی ماہر ہیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز لاہور  میں ملازمت سے کیا تھا۔  سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے سیہون کے سید مراد علی شاہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور میں واپڈا کے ادارہ میں جونئیر انجینئیر بھرتی ہوئے تھے۔

بعد میں وہ کراچی اور حیدر آباد میں دو سرکاری اداروں میں انجینئر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد بینکنگ میں چلے گئے تھے۔

مراد علی شاہ کون ہیں

سید مراد علی شاہ  پاکستان پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن سندھ کے سابق ڈپٹی سپیکر اور سابق وزیر اعلی سیدعبداللہ شاہ کے فرند ہیں۔ وہ  8 نومبر 1962 کو  کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، سید عبداللہ علی شاہ  نے سیاست کا آغاز 1965 ء میں ”بوبک“ یونین کونسل کے چیئرمین  کا انتخاب جیت کر کیا تھا۔  عبداللہ شاہ  1970 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور  1970 کے پہلےعام انتخابات میں سندھ کی صوبائی اسمبلی  کی نشست پر الیکشن اس طرح جیتا کہ وہ تعداد کے لحاظ سے ملک بھر میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار ثابت ہوئے اور  شہید ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں سندھ اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر منتخب کروایا۔ عبداللہ شاہ  1988 ء میں محترمہ بینظیر بھٹو  کی قیادت میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہو کر سندھ اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ وہ  1990 ء میں سینیٹر بھی منتخب ہوئے۔ 1993 ء میں انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ سے اپنے لیے قومی اسمبلی کے لیے ٹکٹ دینے کی گزارش کی، جس کو  محترمہ نےمنظور نہیں کیا اور انہیں پہلے کی طرح صوبائی اسمبلی ہی کا ٹکٹ دیا۔  انتخابات میں کامیابی کے بعد انہیں سندھ کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا ۔  سید عبداللہ شاہ کا شمار سندھ کے پڑھے لکھے وزرائے اعلیٰ میں کیا جاتا ہے اور ان کا ذکر احترام سے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں سندھ کی ترقی کے لیے متعدد قابل ذکر کام کئے۔

عبداللہ شاہ  کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف  آپریشن کیا گیا، جس کا نتیجہ انہیں بھی بھگتنا پڑا اوردہشتگردوں نےان کےبھائی، سید احسان علی شاہ کو شہید کر دیا۔ سید عبداللہ شاہ کی وزارت اعلیٰ میں  20 ستمبر 1996 ء کو کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے، میر مرتضیٰ بھٹو کو  شہید کیا گیا تو وزیر اعلیٰ سید عبداللہ شاہ  نے اس واقعہ کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ محترمہ بینظیر بھٹو کو بھجوا دیا، جو انہوں نے منظور نہیں کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنی ذمہ داریاں بدستور ادا کرتے رہیں۔ عبداللہ شاہ مرتے دم تک محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے وفادار کارکن رہے۔

مراد علی شاہ کی تعلیم؛ بیک وقت انجینئیر اور  مالیاتی ماہر

مراد علی شاہ نے کراچی کے سینٹ پیٹرک ہائی اسکول سے میٹرک کیا، کراچی کے ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کی اور  این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میںانجینئرنگ پروگرام میں داخلہ لیا۔ انہوں نے سول انجینئیرنگ میں بی ای کے ساتھ گریجویشن کی اور NED سے گریجویشن پر چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔  قائداعظم اسکالرشپ  پر کیلیفورنیا کی سٹین فورڈ یونیورسٹی میں ساختیاتی انجینئرنگ میں ایم ایس سی مکمل کی۔  مراد علی شاہ کو دوبارہ انٹرنیشنل سکالر شپ ملا جس پر انہوں نے دو سال بعد اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے معاشی نظام میں دوسری ماسٹرز  ڈگری لی۔ 

لاہور سے کیرئیر کا آغاز

مراد علی شاہ نے پاکستان واپس آ کر انجینئیر کی حیثیت سے کیرئیر کا آغاز پاکستان واپڈا کے ادارہ سے کیا۔ انہیں واپڈا کے طریقہ کار کے مطابق جونئیر انجینئیر کی پوسٹ ملی اور لاہور میں تعینات کیا گیا۔ 1986 سے 1990 تک، شاہ نے لاہور میں بطور واٹر انجینئر  کام کیا۔  بعد ازاں وہ کراچی میں پورٹ قاسم اتھارٹی میں انجینئیر کی حیثیت سے شامل ہو گئے۔ وہ حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سٹی انجینئر بھی رہے۔ 

بینکر کی حیثیت سے کیرئیر

  مراد علی شاہ نے  اپنی سٹینفورڈ یونیورسٹی کی معاشی نظام میں حاصل کی ہوئی ڈگری کو بروئے کار لانے کے لئے کیرئیر بدلا اور سٹی بینک جوائن کر لیا۔ سندھ اور لندن میں سٹی بینک کے لیے کام کیا۔ اس نے کویت میں گلف انویسٹمنٹ کارپوریشن میں بھی کام کیا۔

مراد علی شاہ کا سیاسی کیریئر
سیاست کا آغاز کرنے میں مراد علی شاہ کو کوئی دقت پیش نہیں آئی۔  وہ  2002 کے الیکشن میں پہلی بار PS-77 جامشورو ، دادو  سے سندھ اسمبلی کے رکن بنے۔ارباب غلام رحیم کے دور حکومت میں مراد علی شاہ بطور اپوزیشن پارلیمینٹیرین کافی سرگرم رہے۔ مراد علی شاہ زندگی میں عمومی ڈسپلن رکھتے ہیں۔ اپنی زندگی کی طرح صوبائی اسمبلی میں بھی قوانین و ضوابط پر عمل درآمد کے متعلق غیر لچکدار رویہ کی وجہ سے وہ  2002  والی سندھ اسمبلی کے سینیئر پارلیمینٹیرین اسپیکر مظفر شاہ کو بھی پریشان کردیتے تھے اور اس وقت حکومت اور موجودہ اپوزیشن میں شامل ایم کیو ایم کے اراکین سے بھی ان کی نوک جھونک چلتی آئی ہے۔

 محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کئے جانے کے بعد مراد علی شاہ 2008 میں دوبارہ رکن سندھ اسمبلی کے طور پر منتخب ہوئے اور سید قائم علی شاہ کی کابینہ میں صوبائی وزیر آبپاشی بنے۔ 2013 میں انہیں صوبائی وزیر خزانہ بنایا گیا۔2013 کے انتخابات سے قبل دوہری شہریت کی وجہ سے انھیں نااہل قرار دیا گیا لیکن وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ انھوں نے کینیڈا کی شہریت پہلے ہی چھوڑ دی تھی، جس کے بعد وہ دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے۔

جولائی 2016 میں جب  83  سالہ سید قائم علی شاہ  اپنی صحت کی کمزوری کی وجہ سے وزارتِ اعلیٰ کے منصب سے دستبردار ہوئے تو پارٹی نے ان کی جگہ ان کی کابینہ کے متحرک وزیر  مراد علی شاہ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے منتخب کیا ۔ وہ  وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے وزیر آبپاشی اور  وزیر خزانہ تھے۔

2018  کے الیکشن کے بعد مراد علی شاہ کو پارٹی نے دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بنایا۔ پانچ سال مین مراد علی شاہ نے سندھ کا نقشہ بد ڈالا۔ ان پانچ سال میں ان کی انتظامی صلاحیت، مالیاتی امور پر گرفت اور انجینئیرنگ کی مہارت نے مل کر سندھ میں واقعتاً گورننس کی قابلِ تقلید مثال قائم کر دی۔ مراد علی شاہ نے صحت اور پینے کے پانی کی فراہمی جیسے بنیادی حقوق سے متعق کاموں کو اپنی حکومت کی ترجیحات بنایا اور اس کے ساتھ غربت کے خاتمہ کے پارٹی مشن کو بنیادی توجہ کا مرکز رکھا۔

بلاول بھٹو کی چوائس

مراد علی شاہ کے تیسری مرتبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی مسند کا امیدوار نامزد ہونے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا عمل دخل نمایاں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بلاول بھٹو  مراد علی شاہ کی  مالیاتی نظم اور انجینئیرنگ میں مہارت کو صوبہ کی گورننس میں بروئے کار لانے میں عملی کامیابی سے متاثر ہیں۔  مراد علی شاہ کی دوسری وزارتِ اعلیٰ کے دوران انجام پانے والے قابلِ ذکر کاموں کی فہرست طویل ہے۔ ان خدمات کا عملی نتیجہ 8 فروری کے انتخابات میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی ہمیشہ سے زیادہ پذیرائی کی صورت میں سامنے آیا۔

گزشتہ چند سال میں پاکستان بھر میں سیاسی خلفشار اور  پنجاب، پختونخوا، بلوچستان میں برپا ہونے والے بدنظمی اور بدعنوانی کے طوفان سے سندھ عمومی طور پر محفوظ رہا۔ سندھ کے نوجوانوں  میں انتشار پر مبنی سوچ پنپنے کی شرح سب سے کم رہی تو اس کی ایک وجہ اس عرصہ کے دوران مراد علی شاہ کی بحیثیت وزیر اعلیٰ پرفارمنس کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔