نئی حکومت اور بیوروکریسی کے 100 دن

نئی حکومت اور بیوروکریسی کے 100 دن
کیپشن: City42- New Government
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) وفاق اور پنجاب میں نئی حکومت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم کے حلف اُٹھانے کے بعد آج سردار عثمان بزدار حلف اٹھا رہے ہیں۔ پنجاب کی بیوروکریسی کا فیصلہ ہوگا کہ کون کون کہاں کہاں ہوگا۔ عمران خان کی جانب سے سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب کےلئے نامزد گی نے سب کو حیران کر دیا ہے ،کیونکہ سردار عثمان بزدار نے صرف چالیس روز قبل ہی پی ٹی آئی کو جوائن کیا تھا اور اب انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے اہم ترین عہدوں پر نامزد کر دیا گیا ہے۔ سردار عثمان بزدار مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن میں بھی رہ چکے ہیں۔پسماندہ علاقے سے ان کا تعلق ضرور ہے لیکن انہیں تحصیل نظامت کے انتظامی امور چلانے کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

 پہلے سو دن تو پنجاب کی بیوروکریسی نے ان کو کچھ سمجھنے ہی نہیں دینا اور انہیں ہوا میں اُڑائے پھریں گے۔ کیونکہ پنجاب کی بیوروکریسی تمام انتظامی اور سیاسی رموز واوقاف جانتی ہے لیکن نئے وزیر اعلیٰ بیوروکریسی کو نہیں جانتے ہیں۔ پنجاب کی افسر شاہی نے پہلے ہی پی ٹی آئی قیادت سے رابطے شروع کر دیے ہیں تاکہ اگلی آنے والی حکومت میں اہم ترین پوسٹنگ لی جا سکے۔ جیسا کہ نئی حکومت معرض وجود میں آ چکی ہے اور آج وزیر اعلیٰ پنجاب بھی حلف لے رہے ہیں۔ پہلے سو دن میں حکومت اور بیوروکریسی کیا کرے گی ۔ حکومت کے کیا کیا پلان ہیں اور حکومت اس سلسلہ میں اپنے پتے شو بھی کر چکی ہے کہ پہلے سو دن میں وہ کیا کرے گی اور اس کا اعلان عمران خان پہلے ہی کر چکے ہیں۔ پہلے سو دن میں بیوروکریسی سے عوام کی توقعات اور اہلیت کے پیمانے کیا ہونگے۔

ماضی کے عوام کے تجربات بیوروکریسی سے کچھ اچھے نہ ہیں۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں افسر شاہی کی اچھی شہرت رہی ہے۔ بھٹو دور سے قبل بیوروکریسی کافی حد تک غیر جانبدار رہی ہے۔ جیسے ہی ضیا دور آیا تو بیورورکریسی سیاسی ہوتی چلی گئی۔ اور اب گزشتہ دس سے پندرہ سال میں بیوروکریسی خاص طور پر سیاسی ہو کر رہ گئی ہے۔ماضی میں افسر شاہی کو تقرری صرف ان کی سیاسی وابستگی اور ایک خاص گروپ یا ایک خاص سیاسی جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر دی جاتی رہی ہے، جس سے پنجاب میں بیوروکریسی کے کئی گروپ بن گئے، جو آپس میں ہی دست و پیکار رہے ہیں۔ پہلے سو دن میں افسر شاہی سے کارکردگی کی کم ہی توقع رکھنی چاہیے، سیاسی طور پر تو پہلے سو دن کے ٹارگٹ پورے کئے جا سکتے ہیں لیکن انتظامی طور پر حکومت کو کافی دشواریوں کا سامنا ہوگا اور حکومت کے لئے یہ ایک چیلنج سے کم نہ ہوگا۔ کیونکہ پہلے سو دن میں تو عمران خان نے کڑے احتساب کاا علان کر رکھا ہے اور نیب بھی کافی متحرک ہے۔

 ابھی سے افسران نے نیب کے دفتر فائلیں پہنچانا شروع بھی کر دی ہیں۔ کمپنیوں اور پراجیکٹ میں کام کرنے والے افسران کی فائلیں نیب کے دفاتر میں آڈٹ ہو رہی ہیں، جہاں پر ان کے خلاف ریفرنس بنانے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ موجودہ حکومت ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر رکھے گئے افسران کو بھی فارغ کرنے کا پلان رکھتی ہے اور یہ فیصلہ ہونا ہے کہ کس کس کو رکھنا ہے اور کس کوسرے سے نوکری سے ہی فارغ کرنا ہے۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید سخت فیصلے ہونگے اور بیوروکریسی کو اپنا طرز زندگی اب بدلنا پڑے گا۔ حکومت پنجاب نے ابھی سے افسران کی لسٹ کی تیاری شروع کر دی ہے کہ کون کس کے ساتھ وابستگی رکھتا ہے اور کس کس کی سفارش پر ماضی میں پوسٹنگ لیتا رہا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب اکبر حسین درانی اور آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام کافی پر امید ہیں کہ نئی حکومت کے ساتھ وہ بھی چلیں گے اور انہیں تبدیل نہیں کیا جائے گا جبکہ سیکرٹری ، آر پی او اور ڈی سی اور ڈی پی او کی سطح کے افسران نے اپنے اپنے طور پر پی ٹی آئی مقامی اور سیاسی قیادت سے اپنے رابطے مکمل بھی کر لئے ہیں تاکہ انہیں اگلی حکومت میں تحفظ مل سکے۔

پہلے سو دن میں سب سے بڑا مسئلہ سروس ڈیلیوری کا ہوگا۔ گراس روٹ لیول پر اس وقت مسلم لیگ ن دور کے بھرتی ہونے والے نائب تحصیلدار اور اے ایس آئی اب تحصیلدار، اے سی اور ڈی ایس پی بن چکے ہیں جن کی سیاسی وابستگی واضح ہے اور ان کی تربیت کی ضرورت ہوگی تاکہ ان کا مائنڈ سیٹ تبدیل کیا جا سکے۔ تحصیل کے بعد ضلع کی سطح کی سروس ڈلیوری پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایک عام آدمی کا براہ راست رابطہ تحصیل اور ضلع کی سطح پر انتظامیہ سے پڑتا ہے اور وہیں سے قانونی چارہ جوئی شروع ہوتی ہے۔ پنجاب میں نگران دور میں اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں کی گئیں لیکن تحصیل اور ضلع کی سطح کے افسران کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کر دیا گیا، جس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور اس وقت بھی مسلم لیگ ن کی بھرتی کردہ اور تعینات کردہ افسر شاہی موجود ہے۔

 پنجاب میں گریڈ سترہ سے لے کر گریڈ21تک کے افسران ماضی میں مسلم لیگ ن کے سیاستدانوں کے ڈیروں پر پوسٹنگ لینے کے لئے چکر لگاتے رہے ہیں۔ اب اس ساری بیوروکریسی کو راتوں رات بدلنا اور ان کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرناہوگا۔ نئی حکومت کو پہلے سو دن میں ایک اور چیلنج اوور سیز پاکستانیز کی جانب سے بھی ہوگا کیونکہ اوورسیز پاکستانیز کی ایک بہت بڑی تعداد نے عمران خان کو سپورٹ کیا ہے اور یہ اوور سیز پاکستانی جب واپس آتے ہیں تو ایئر پورٹ پر انہیں رشوت دینا پڑتی ہے۔

 اس طرح وفاقی افسر شاہی کو ایک الگ سے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا اور پاکستان میں اوور سیز پاکستانیوں کی جائیداوں کا تحفظ اور ان کے رشتہ داروں کو تحفظ دینا ہوگا ۔ کرپشن فری معاشرہ بنانے کے لئے یہ اقدامات ضروری ہیں۔ حکومت کیلئے آنیوالے سودن آسان نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ثابت ہوسکتے ہیں اس کیلئے مستقبل مزاجی سے کام کرناہوگا۔ حکومت نے عمران خان کے وژن کوفالو کیا تو اس کے بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں بصورت دیگر ڈنگ ٹپائو معاملات تو سب چلا لیتے ہیں۔ دوسری بات سردار عثمان بزدار کی نامزدگی کرکے ایک کمزور ٹیم کاتاثردیاگیاہے۔پی ٹی آئی کے ویژن کو پورا کرنے میں ٹیم ورک ایک انتہائی اہم ہے۔ عثمان بزدار کا ماضی اورسیاسی وابستگیاں تبدیل کرنا، انتظامی اور سیاسی ناپختگی رکھناپی ٹی آئی کے پہلے سودن کے وژن میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر