ملک محمد اشرف:لاہور ہائی کورٹ نے میڈیکل کالجز میں طلبہ کے ڈیڈ باڈیز پر تجربات کرنے اور انسانی نعشوں کی بے حرمتی کے خلاف رٹ پٹیشن پر سماعت کی۔عدالت نے حکومت کی جانب سے قائم کمیٹی میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے اور ایک ہفتے میں کمیٹی کا پہلا اجلاس بلا نے کاحکم دے دیا۔
جسٹس شجاعت علی خان نے مقامی وکیل کی درخواست پر سماعت کی ۔عدالت میں صوبائی سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ بیرسٹر نبیل ظفر، وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر جاوید اکرم، ایڈیشنل آئی جی آپریشنز لاہور، ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اور دیگرپیش ہوئے۔عدالت نے طلبی کے باوجود چیف سیکرٹری پنجاب اور سیکرٹری داخلہ کے حاضر نہ ہونے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میڈیکل انسٹیٹیوشنز کو تعلیمی مقاصد کے لئے انسانی نعشوں کی فراہمی کے حوالے سے قانونی ڈرافٹ کیا جارہا ہے۔کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔
عدالت میں کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے اور اس کا اجلاس منعقد کرنے کا حکم دیا ۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ انسانی نعشوں کی سپلائی اور خریدوفروخت میں سرکاری ادارے بھی ملوث ہیں۔نعشوں کے لین دین میں ملوث سرکاری ادارے ایک دوسرے پر تحریری الزام عائد کرنے میں ملوث ہیں ۔ صوبے میں ایم بی بی ایس کے پہلے اور دوسرے سال کے طلبہ کے لئے انسانی نعشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ایم بی بی ایس کے طلبہ انسانی نعشوں پر پریکٹیکلز اور تجربات کرتے ہیں ۔ طلبہ کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کو انسانی نعشوں کی ضرورت پڑتی ہے، جو کہ پولیس مہیا کرتی ہے ۔ گزشتہ دو برسوں میں 15 انسانی نعشیں پولیس نے فراہم کی گئی ہیں۔ دو برسوں میں چار نعشیں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو فراہم کی گئی ہیں ۔
انسانی نعشوں کو میڈیکل کالجوں یا یونیورسیٹیوں کے حوالے کرنے کا قانون نہیں ہے۔گزشتہ دو برسوں کے دوران کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سمیت کسی بھی سرکاری یاپرائیویٹ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کو انسانی نعش فراہم کی ہے۔علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور کے ایڈمنسٹریٹر نے کہا کہ پولیس اور مینٹل ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ انسانی نعشیں فراہم کرتے ہیں۔گزشتہ دو برسوں کے دوران علامہ اقبال میڈیکل کالج سمیت کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کو انسانی نعش فراہم نہیں کی۔
انسانی نعشوں کی فراہمی کے متعلق سرکاری اداروں کے تحریری موقف نے ابہام پیدا کر دیا۔ انسانی نعشوں کی خریدو فروخت کا گھنائونا کاروبار صوبے میں چمکنے لگا ہے۔گھنائونے کاروبار میں ملوث افراد ابہام سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔اور صوبے میں انسانی نعشوں کا کاروبار عام ہوگیا۔ صوبے میں پرائیویٹ میڈیکل کالج پانچ لاکھ روپے تک انسانی نعشیں خریدنے لگے۔ سب سے زیادہ فروخت لاوارث اور ناقابل شناخت انسانی نعشوں کی ہوتی ہے۔درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے۔