(قیصر کھوکھر) نیا پاکستان ارکان اسمبلی اور بیوروکریسی کے ہاتھوں مکمل طور پر یرغمال ہوچکا ہے اور عوام اس چکی میں پس رہے ہیں۔ارکان اسمبلی اپنا اصل قانون سازی کا کام بھول کرتھانے کچہری اور پٹواریوں کے تبادلوں کی سیاست کر رہے ہیں اور بیوروکریسی نے اپنے دفاتر کے دروازے عوام کے لئے بند کررکھے ہیں اور کوئی بھی فیلڈ افسر اپنے دفتر میں عوام کو نہیں ملتا۔
عوام کے عام نوعیت کے مسائل جوں کے توں ہیں اور ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ پنجاب سے یہ مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں ڈی سی اور ڈی پی او کے دفاتر میں تبادلوں سمیت تمام کام کروانے کی رسائی دی جائے۔ تبدیلی اور نیا پاکستان کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کے بعد اب یہ نعرہ مدھم ہوتا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کے اپنے ہی ارکان اسمبلی نے نیا پاکستان کو یرغمال بنا لیا ہے۔ نئے پاکستان میں عوام کو توقعات تھیں کہ اب معاملات کو شفاف اور بہتر پالیسی کے تحت چلایا جائے گا اور ماضی کی قباحتوں اور پسند نا پسند کو ختم کیا جائے گا،لیکن گزشتہ تین ماہ کا تجربہ کہتا ہے کہ تبدیلی کہیں دور دور تک نظر نہیں آ رہی ہے۔وہی پرانے چہرے پی ٹی آئی کا لبادہ اوڑھ کر میدان سیاست میں مصروف عمل ہیں اور وہی پرانے سیاستدان وفاداریاں تبدیل کر کے پی ٹی آئی میں شامل ہو کر پٹواریوں اور تھانیداروں کے تبادلوں میں مصر و ف ہیں۔ اور تھانہ اور کچہری کے معاملات میں بے جا مداخلت کی جا رہی ہے ۔
عوام کے مسائل اسی طرح ردی کی ٹوکری میں پڑے ہیں۔ کسی نے نہیں سوچا کہ بے روز گاری کیسے ختم کی جائے ، تعلیمی اصلاحات کیسے لائی جائیں، صحت کی سہولتیں کیسے بہتر کی جائیں، اور عوام کے عمومی مسائل کس طرح حل کئے جائیں ؟ابھی تک ارکان اسمبلی اور حکومت کو اس طرف توجہ دینے کے لئے وقت نہیں ملا ۔ پانچ سال گزرتے پتہ نہیں چلتا ہے اور حکومت کے پہلے سو دن تو مکمل طور پر ناکام رہے ہیں کہ حکومت ابھی تک اپنی ترجیحات کا صحیح طور پر تعین اور سمت درست نہیں کر سکی ۔
گزشتہ دنوں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے سامنے سرگودھا ڈویژن کے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی پھٹ پڑے اور بیوروکریسی کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیئے کہ بیوروکریسی ارکان اسمبلی کے کام نہیں کر رہی ہے ۔ پنجاب حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کےلئے مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے کیونکہ ارکان اسمبلی کو تھانہ کچہری کی سیاست کی لت پڑی ہوئی ہے اور یہ سب کچھ پی ٹی آئی کی حکومت کو ورثے میں ملا ہے ، پی ٹی آئی نے الیکشن کے دوران عوام سے تبدیلی کے نام پر ووٹ لئے کہ ہم آپ کو نیا پاکستان بنا کر دیں گے۔
الیکشن کے دوران یہ بھی کہا گیا کہ کے پی کے ماڈل کا پولیس نظام لائیں گے لیکن کے پی کے میں کوئی بھی رکن اسمبلی تھانہ کچہری کی سیاست نہیں کرتا ہے اور نہ ہی پولیس کسی پر جھوٹا مقدمہ درج کرتی ہے اور نہ ہی کوئی رکن اسمبلی تھانیداروں کے تبادلے کراتا ہے۔ کے پی کے پولیس کی نوکری ایک پر سکون نوکری ہے ۔پولیس پولیس کوئی نہیں کھیلتا ہے۔ لیکن پنجاب میں تو ہر رکن اسمبلی اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے پولیس کا سہارا لیتا ہے۔ پنجاب حکومت کے
حالات یہاں تک جا پہنچے ہیں کہ پنجاب حکومت نے تاریخ میں پہلی بار اسسٹنٹ کمشنر رینک کے افسران کے تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کر دی ہے اور نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ آج سے کسی بھی اسسٹنٹ کمشنر کا تبادلہ نہیں ہوگا اور اگر کہیں انتظامی طور پر ضروری ہو تو اس کی منظوری وزیر اعلیٰ پنجاب سے سمری بھیج کر لی جائے ۔ اس طرح ارکان اسمبلی کے دباﺅ پر اسسٹنٹ کمشنرز کے تبادلوں پر تنگ آ کر حکومت نے پابندی عائد کی ہے ،تاکہ اراکان اسمبلی کا اس حوالے سے پریشر کم کیا جائے اور دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب نے اسسٹنٹ کمشنرز کی تعیناتی کا اختیار ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے لے کر اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور اب وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ اسسٹنٹ کمشنرز کے تبادلے کرے گا۔
یہ پنجاب کی انتظامی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنرز کے تبادلوں پر پابندی عائد کی گئی ہے اور بیوروکریسی کا اختیار وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ یہ اختیارات مزید نچلی سطح پر دینے کی بجائے اور سنٹرلائزڈکر دیاگیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہےے تھا کہ ایک درجہ نیچے اسسٹنٹ کمشنرز کے تبادلوں کا اختیار ڈویژنل کمشنرز کو دیا جاتا وہ اختیار وزیر اعلیٰ نے لے لیا ہے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے پٹواریوں کے تبادلوں میں ملوث ہونے کے بارے میں اضلاع کے ڈی سی کی شکایت سامنے آ چکی ہے۔
پنجاب کے تقریباً تمام اضلاع کے ڈی پی او کو اس وقت ایس ایچ او کے تبادلوں کے حوالے سے مقامی ارکان اسمبلی کے دباو اور سفارشوں کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کے حوالے سے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کر سکی ہے۔ آج بھی بیوروکریسی کے تمام تقرر و تبادلے وزیر اعلی کی منظوری سے ہو رہے ہیں، جبکہ کے پی کے میں آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری ڈی پی او سے ایڈیشنل آئی جی تک اور ڈی سی سے لے کر ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور سیکرٹری تک کے تمام تبادلے خود کرتے ہیں،اور اس انتظامی کنٹرول میں وزیر اعلیٰ کے پی کے کا کوئی کردار نہیں۔
لیکن پنجاب میں ابھی تک ہر کام کی منظوری سمری کی صورت میں وزیر اعلیٰ پنجاب سے لی جا رہی ہے۔ وزیر اعلی پنجاب جس رکن اسمبلی کو بھی ملتے ہیں وہ وزیر اعلیٰ کو تبادلوں کی ایک لمبی چٹ پکڑا دیتا ہے۔ ارکان اسمبلی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کے حلقے کے کون کون سے ترقیاتی کام اور کس طرح اسمبلی کے روز مرہ کے بزنس میں ایک متحرک کردارا ادا کرنا ہے۔ ارکان اسمبلی کو صرف تھانہ کچہری اور تقرر و تبادلوں میں گہری دلچسپی ہے ۔اسی حوالے سے وہ وزیر اعلیٰ آفس اور انتظامیہ کے دفاتر کے چکر لگاتے ہیں۔
کے پی کے کا سیاسی اور انتظامی کلچر پنجاب لانا موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے بس کا روگ نہیں۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں وزراءسیکرٹریوں کے دفاتر جاتے ہیں اور تبادلوں کی چٹ سیکرٹریوں کو پکڑا دیتے ہیں۔ اگر کوئی وزیر اورچیف سیکرٹری سے ملے تو اس کا مقصد بھی تقرر و تبادلہ ہی ہوتا ہے نہ کہ اسمبلی اور قانون سازی کے معاملات۔حکومت پنجاب نے اسسٹنٹ کمشنرز کے تبادلوں پر پابندی عائد کر کے اپنی ارکان اسمبلی کے سامنے بے بسی کو ظاہر کیا ہے۔
کے پی کے کا سیاسی کلچر پنجاب میں لانا تو دور کی بات پی ٹی آئی کو اپنے اراکان اسمبلی کو یہ بارو کرانا بھی مشکل نظر آ رہا ہے کہ ارکان اسمبلی کا کردار آئین میں لکھا ہوا کیاہے؟ اس پر عمل کیا جائے اور پولیس پولیس نہ کھیلا جائے ۔ حکومت فوری طور پر اپنے ایجنڈا اور منشور پر عمل کرے اور میرٹ پر کام شروع کرے اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے اعلان پر مکمل طور پر عمل کیا جائے اور تھانہ اور کچہری کو سیاسی عمل دخل سے باہر کیا جائے۔ جن دن تھانہ کچہری کی سیاست ہمارے سیاسی سیٹ اپ نے الگ ہوگئی وہی دن نیا پاکستان کے لئے اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ نیاپاکستان بنانے سے پہلے وزیراعظم عمران خان کو اپنے ارکان کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی،ان کی سوچ تبدیل ہوگئی تو پاکستان میں حقیقی تبدیلی آ جائے گی۔