ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کا فیصلہ ہوگیا

پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کا فیصلہ ہوگیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

دو بڑی خبریں سیاسی منظر نامے پر زیر بحث رہیں پہلی خبر کے مطابق پنجاب میں حزب اختلاف کے قائد میاں حمزہ شہباز شریف نے نگران وزارت اعلیٰ کے لیے دو نام گورنر پنجاب بلیغ الرخمٰن کو بجھوا دئیے ان دو ناموں میں سنیئر صحافی اور سٹی نیوز نیٹ ورک کے بانی سید محسن رضا نقوی اور سابق بیوروکریٹ احد چیمہ کے نام ہیں، پی ٹی آئی کےپہلے ہی تین نام موصول ہوچکے ہیں سو اب اگلے 48 گھنٹے اہم ہیں کہ کون پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ ہوگا ؟ اب  اگر مشاورتی عمل میں کوئی نام منتخب نہیں ہوتا تو معاملہ الیکشن کمیشن میں چلا جائے گا ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کے تین ناموں میں سے ایک نام ناصر کھوسہ صاحب کا ہے جنہوں نے صاف انکار کر رکھا ہے دوسرا نام احمد سکھیرا صاحب کا ہے جو تاحال سرکاری ملازم ہیں اور تیسرا نام نصیر خان کا ہے جو دوہری شہریت کے حامل ہیں،دوہری شہریت کے حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں اس طرح دیکھا جائے تو عملی طورپر پی ٹی آئی کی جانب سے دئیے جانے والے تینوں نام اب بے معنی سے ہوگئے ہیں اس صورتحال میں  مسلم لیگ ن کے نام میدان میں بچتے ہیں اس جماعت کے قائد نواز شریف نے بھی ان ناموں کو بہترین نام قرار دیا ہے یوں اب فیصلہ سید محسن رضا نقوی اور احد چیمہ کے مابین ہے جس میں سے ایک نام الیکشن کمیشن کو بطور نگران وزیر اعلیٰ کے منتخب کرنا ہے اور اس دوڑ میں سید محسن رضا نقوی اس لیے مضبوط امیداوار نظر آتے ہیں کہ سیاسی اور صحافتی حلقوں میں وہ ایک ٖغیر متنازعہ شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔اور یہ وہ نام ہے جو ممکنہ طور پر پنجاب کے آنے والا نگران وزیر اعلیٰ ہوں گے ۔

 یہ تو تھی پہلی خبر اب ذرا دوسری خبر کی خبر بھی لیتے ہیں کہ کل کے دن میں ہی قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے پاکستان تحریک انصاف کے 33 اور عوامی مسلم لیگ کے دو ،جن میں شیخ رشید اور اُن کے بھانجے شیخ راشد بھی شامل ہیں ،جنہوں نے عمران خان کی محبت میں اپنے استعفے جمع کرائے تھےاُن کے استعفے منظور کرلیے ہیں  ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے ہیں ان میں مراد سعید، عمر ایوب خان، اسد قیصر، پرویز خٹک، عمران خٹک، شہریار آفریدی، علی امین خان، نور الحق قادری، راجا خرم شہزاد نواز، علی نواز اعوان، اسد عمر، صداقت علی خان، غلام سرور خان، منصور حیات خان، فواد احمد، ثنااللہ خان مستی خیل، محمد حماد اظہر، شفقت محمود خان، ملک محمد عامر ڈوگر، شاہ محمود قریشی، زرتاج گل، فہیم خان، سیف الرحمٰن، عالمگیر خان، علی حیدر زیدی، آفتاب حسین صادق، عطااللہ، آفتاب جہانگیر، محمد اسلم خان، نجیب ہارون اور محمد قاسم خان سوری شامل ہیں۔ 

 یوں وہ خواب جو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے 2013 کے انتخاب میں 35 پنکچر کے نام سے دیکھا تھا وہ پورا ہوگیا اور قومی اسمبلی میں اُن کی جماعت کی ٹیوب میں جو ہوا بھری گئی تھی وہ اب صحیح معنوں میں پنکچر ہوچکی ہے وافقان حال جانتے ہیں کہ کسی ٹیوب میں جب 35 پنکچر لگ جائیں تو وہ ٹیوب ایک کاٹھ کباڑ کے سوا کچھ نہیں ہوتی اور اسے کسی کباڑئیے کے ہاں ہی فروخت کیا جاسکتا ہے عمران خان کی سیاسی غلطی کا خمیازہ اب پوری جماعت کو بھگتنا ہے جو لانگ مارچ کے ذریعے ملکی سیاست میں بھونچال لانے اور قومی حکومت کو گرانے کے لیے لانا چاہتے تھے اسے اُنہوں نے اپنی حکومتوں کو گرا کر اپنے لیے ہی ایک طوفان کھڑا کرلیا ہے اب آنے والے دنوں میں کیا ہوگا اس کی سیاسی شکل سامنے آنا شروع ہوگئی ہے ان خالی نشستوں پر پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر کے بقول عمران خان ہی امیدوار ہوں گے ماسوائے خواتین نشستوں کے کہ اس کے لیے عمران خان خود نہیں آسکتے طبی مجبوری ہے وگرنہ خان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ ان پر بھی کاغزات نامزدگی جمع کرالیتے ، اسے بھی سمجھ لیں کہ ایسا کیوں ہے کہ عمران خان ہی ضمنی انتخاب میں حصہ لیں گے تو یہ ایک طرح کا کیمو فلاج ہے جس کے ذریعے پی ٹی آئی کی مقبولیت والی ٹیوب میں ہوا بھری جاتی ہے لیکن اس ٹیوب سے ہوا  مولانا فضل الرخمٰن کے اس بیان نے نکال دی کہ  پی ڈی ایم کا کوئی امیدواران ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لے گا اور یوں عمران خان کامیاب ہو بھی جائیں تو وہ سیاسی افراتفری کی وہ فضا پیدا نہیں کرسکیں گے کہ جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں اور جنرل الیکشن منعقد کرانا چاہتے ہیں ، عمران خان اپنی حکومتوں کے خاتمے سے اُس فاش غلطی کا ارتکاب کر چکے ہیں جو اُن کی سیاسی موت کا سبب بن سکتی ہے ۔

35 اراکین کے استعفے منظور کرنے کی یہ چال پی ڈی ایم کی آخری چال نہیں صرف ایک ٹریلر ہے اس کے بعد مزید اراکین کے استعفے منظور کیے جائیں گے ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نگران حکومتیں قائم ہوں گی جن کی تعیناتی بلا شبہ الیکشن کمیشن کرے گا آنے والی نگران حکومت کو عمران خان تسلیم کریں یا نہ کریں الیکشن میں حصہ لیں یا بائیکاٹ کریں ہر صورت سیاسی نقصان انہی کا ہوگا کہ اب آنے والے دنوں میں وہ سیاسی ٹیوب جس پر بیٹھ کر خان صاحب سیاست کے دریا میں تیر رہے تھے وہ نہیں رہے گی ، مقدمات کُھلیں گے گرفتاری بھی ہوسکتی ہے اور ایسے حالات میں پاکستان تحریک انصاف میں بڑے سائز کی دراڑیں بھی پڑسکتی ہیں ،چودھری پرویز الہیٰ نے اسی امر کو بھانپتے ہوئے دو روز پہلے والے تحریک انصاف میں شمولیت پر بڑا یو ٹرن لیا اور کہا کہ وہ حلقوں کے عوام سے پوچھیں گے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے یعنی نا نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی والا معاملہ ہوگا۔