زیادتی کے کیسز حل نہ ہونے کی سنگین وجہ سامنے آگئی

زیادتی کے کیسز حل نہ ہونے کی سنگین وجہ سامنے آگئی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(علی ساہی)بچوں کیساتھ زیادتی کیسز میں پولیس کی دلچسپی دکھاوا ثابت ہوئی، 79فیصد کیسز میں خواتین تفتیشی ہی موجود نہیں، بروقت ڈی این اے سیمپلنگ کا فقدان، کرائم سین کادورہ کرنیوالے67 فیصدافسروں نے رجسٹرڈ میں رپورٹ ہی درج نہیں کی.

تفصیلات کے مطابق پولیس کی جانب سے دعوی کیا جاتا ہے کہ کم عمر بچوں کےساتھ زیادتی کے کیسز میں بروقت اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اعدادوشمار نے کم عمربچوں کے ساتھ زیادتی کیسز میں پولیس کی دلچسپی، دعوؤں اورسنجیدگی کا پول کھول دیا ہے۔جس کی وجہ سے کم عمربچوں کے ساتھ زیادتی کیسز دن بدن بڑھنے لگے ہیں۔ خبروں میں آنے والے کیسز پہ افسروں کی توجہ ہوتی ہےجبکہ باقی کیسز میں ڈی ایس پی بھی توجہ نہیں دیتے۔

پولیس اعداد و شمارکے مطابق 79فیصد کیسز میں خواتین تفتیشی ہی موجود نہیں جبکہ خواتین اوربچیوں کے کیسزمیں خاتون تفتیشی کا موجود ہونا سٹینڈنگ آرڈرکےذریعے لازمی قرار دیا گیا ہے۔61فیصد کیسزمیں 48گھنٹوں تک ڈی این اے سیمپلزنہیں لئے جاتے۔ بروقت ڈی این اے سیمپلز نہ لینے کی وجہ سےشواہد ضائع ہوجاتے ہیں اورکیسزحل نہیں ہوپاتے۔جبکہ اکثر اہم کیسز ڈی این اے کےذریعے ہی حل ہوئے ہیں۔

علاوہ ازیں 67 فیصد کیسزمیں ڈی ایس پیز کیس ڈائری نہیں لکھتے جبکہ 58فیصدمیں کرائم سین کادورہ کرکے رجسٹر میں رپورٹ نہیں لکھی جاتی۔ گزشتہ سال لاہورکے 230 سمیت صوبہ بھرمیں 14سو سے زائد کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔

گزشتہ ہفتے کی رپورٹ کے مطابق  خواتین پر تشدد، ہراسگی، وارثتی جائیداد سمیت دیگر شکایات میں مزید اضافہ ہوا جبکہ سال 2020 میں پنجاب ویمن ہیلپ لائن پر بھی شکایات کا انبار لگ گئے۔ 22 ہزار 790 شکایات موصول ہوئیں۔

خواتین پر تشدد سے متعلق دو ہزار 762 شکایات موصل ہوئیں، جن میں صرف گھریلو تشدد کی دو ہزار 269 شکایات شامل ہیں۔ خواتین کو ہراساں کرنے کی مجموعی طور پر دو ہزار 339 شکایات موصول ہوئیں جس میں ورک پلیس ہراسمنٹ کی 71 جبکہ سائبر ہراسمنٹ کی 598 شکایات موصول ہوئیں۔

M .SAJID .KHAN

Content Writer