میں لاہوری ہوں اور لاہوریوں کا جشن منانے کا انداز وکھری ٹائپ کا ہے، فواد رانا

میں لاہوری ہوں اور لاہوریوں کا جشن منانے کا انداز وکھری ٹائپ کا ہے، فواد رانا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42 :لاہور قلندرز کے سربراہ فواد رانا کا کہنا ہے کہ  میں لاہوری ہوں اور لاہوریوں کے جشن منانے کا انداز یہی ہوتا ہے کہ بارش ہو جائے تو باہر نکل جاتے ہیں۔ دھوپ پڑنے لگے تو باہر نکل آتے ہیں پھول کھلنے کا موسم آئے تو باہر آجاتے ہیں۔

فواد رانا نے بی بی سی ے بات کرتے ہوئے خود اپنے بارے میں بتایا کہ  میں لاہوری ہوں اور لاہوریوں کے جشن منانے کا انداز یہی ہوتا ہے کہ بارش ہو جائے تو باہر نکل جاتے ہیں۔ دھوپ پڑنے لگے تو باہر نکل آتے ہیں پھول کھلنے کا موسم آئے تو باہر آجاتے ہیں۔ اس بار پی ایس ایل میں کراؤڈ نہیں ہے لیکن میری فیملی کو پتہ ہے کہ جب میں اکیلے بھی میچ دیکھ رہا ہوتا ہوں اس وقت بھی میں ایسی ہی حرکتیں کرتا ہوں چھلانگیں مارتا ہوں، اٹھتا ہوں اور بیٹھتا ہوں۔‘وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگوں کی محبت ہے کہ انھوں نے مجھے اتنا پیار دیا ہے میری مثبت سوچ اور باتوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ لوگوں کو میری شکل اور شخصیت میں ایک امید نظر آتی ہے۔ انسان امید پر زندہ ہے میں لوگوں کی امیدوں کو توڑنا نہیں چاہتا۔ میں اسی طرح رہتا ہوں۔ لطف بھی اٹھاتا ہوں۔

انہوں نے اس سوال پر کہ  وہ وقت بھی آیا تھا جب آپ نے کہا تھا کہ آپ ہارتے ہارتے تھک چکے ہیں تو اب فائنل میں ٹیم کے پہنچنے کے بعد یہ تھکاوٹ ِختم ہوچکی ہو گی؟اس پر وہ ہنستے ہوئے بولے ʹ ُاس وقت ہم چار پانچ لگا تار میچ ہار گئے تھے اور میں بہت زیادہ دکھی تھا اور آپ میڈیا والے اتنے اسمارٹ لوگ ہیں کہ مجھے ایسے وقت پکڑتے ہیں جب میرا عجیب وغریب قسم کا موڈ ہوتا ہے۔ میں نے اس وقت وقتی ردعمل کا اظہار کیا تھا کیونکہ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ چارسال پوائنٹس ٹیبل پر سب سے آخری نمبر پر رہنا یہ بڑے حوصلے کی بات تھی لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ میں سب کچھ چھوڑ کر کہیں جارہا ہوں۔‘
فواد رانا نے کہا ’ہم نے اپنے کھلاڑیوں کو ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت آسٹریلیا بھیجا۔ ہائی پرفارمنس سینٹر قائم کیا۔ میرا یقین ہے کہ اگر آپ ایک مرتبہ سسٹم تیار کر لیں تو پھر کوئی چیز مشکل نہیں رہتی۔فرنچائز کرکٹ بیس کرکٹرز سے نہیں چل سکتی، فواد رانا کہتے ہیں ʹمیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ کا ُپول بہت محدود تھا۔ جب آپ پانچ چھ ٹیموں کی فرنچائز کرکٹ کھیلتے ہیں تو آپ کو 100 سے 120 کرکٹرز چاہئیں جبکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں 11 کھلاڑی ہیں ان میں مزید 11 کا اضافہ کرکے 22 کر دیں لیکن یہ 22 کرکٹرز فرنچائز کرکٹ کو وہ مواد فراہم نہیں کرسکتے۔اسی لیے ہم نے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کیا تھا۔ ٹیلنٹ ڈھونڈنا شروع کیا تھا جس کے لیے ہم شہر شہر گئے اور اس ٹیلنٹ کو نکھارنے کے لیے آسٹریلیا بھیجنا شروع کیا۔ جب آپ یہ کام کرتے ہیں تو آپ کو مطلوبہ نتائج کے لیے کم ازکم دو سال تو درکار ہوتے ہیں۔ دوسال پہلے حارث رؤف کہاں تھا؟ اسے ہم نے آسٹریلیا بھیجا۔ اسی طرح شاہین شاہ آفریدی۔ دلبر حسین اور معاذ اب گروم ہو کر سامنے آرہے ہیں۔

فواد رانا پی ایس ایل میں کراچی اور لاہور کی موجودگی کو دو مختلف ثقافتی پس منظر کے تناظر میں بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔ʹیہ روایتی مسابقت ہمیشہ سے رہی ہے ۔ دونوں شہر پاکستان کی کرکٹ میں اہم حیثیت کے حامل ہیں اور جب یہ دونوں شہر فائنل میں مدمقابل ہوں گے تو اس کا اپنا مزا ہوگا۔

ایک جانب لاہور قلندرز کو لاہور کے علاوہ پورے پنجاب کی سپورٹ حاصل ہوگی تو دوسری طرف کراچی کنگز کو کراچی کے علاوہ سندھ کی حمایت ملے گی جس سے فائنل کے جوش وخروش میں غیرمعمولی اضافہ ہوجائے گا۔ یہ سپین کے ایل کلاسیکو جیسا ہی کوئی کام ہونے جارہا ہے۔ یہ فائنل لوگوں میں خوشیاں بانٹنے کا بہترین موقع ہوگا۔ʹ