ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مجھ سے مسئلہ ہے تو میرا نام لیکر کہیں،ماضی کے اقدامات کا ذمہ دار نہیں:چیف جسٹس

مجھ سے مسئلہ ہے تو میرا نام لیکر کہیں،ماضی کے اقدامات کا ذمہ دار نہیں:چیف جسٹس
کیپشن: File photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (امانت گشکوری)سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واوڈا اور رہنما متحدہ قومی موومنٹ مصطفٰی کمال سے 2 ہفتے میں جواب طلب کرلیا، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ جو تنقید کرنی ہے ہمارے سامنے کریں، باپ کے گناہ کی ذمہ داری بیٹے کو نہیں دی جا سکتی،معاشرے میں سب سے زیادہ کمزور وہ ہے جو بندوق اٹھاتا ہے،اپنی ذات نہیں بلکہ ادارے کیلئے حلف لیا ہے،مہذب معاشرے میں توہین عدالت کا قانون استعمال نہیں ہوتا۔

   سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر ازخودنوٹس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر افغان بنچ میں شامل ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے وہ پریس کانفرنس سنی، کیا یہ توہین عدالت ہے یا نہیں؟ہمیں شاید باہر سے دشمن کی ضرورت ہی نہیں،میں ماضی کے سپریم کورٹ کے اقدامات کا ذمہ دار نہیں ہوں۔

  ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مجھے جو ویڈیو ملی اس  میں متعلقہ حصوں کی آواز میوٹ تھی،چیف جسٹس نے کہاکہ توہین عدالت کے قانون کو پڑھتے ہیں، اداروں میں نقص ہوسکتا ہے، کسی اور کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے،اگر آپ ادارے کو انڈر مائن کریں گے تو یہ درست نہیں،میرے خلاف بہت زیادہ باتیں ہوئیں جن کو میں نے نظرانداز کیا،ہم ہر روز اچھا کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

   چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس   کی تفصیلات طلب کرلیں،چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا چیخ و پکار کرکے آپ ادارے کی خدمت کررہے ہیں؟جس کے پاس دلائل ہوں اس کو اس سب کی ضرورت نہیں،ادارے عوام کے ہوتے ہیں ، ان کو بدنام کرنا ملکی خدمت نہیں،اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو بتائیں، تنقید کریں،ایک کمشنر صاحب نے پریس کانفرنس کی، سب نے چلا دی،تنقید کی ایک حد ہونی چاہئے، ان کے بعد ایک اور صاحب آ گئے جن کا نام مصطفیٰ کمال ہے،مصطفیٰ کمال نے بھٹو کا ذکر کیا،دونوں افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں، ایوان میں بولتے،پارلیمان میں بھی ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی، باپ کے گناہ کی ذمہ داری بیٹے کو نہیں دی جا سکتی،میڈیا میں بھی اچھے اور برے صحافی موجود ہیں،ہمیں پتہ ہے ہماری عدلیہ کون سے نمبر پر ہے، گالیاں دینا مناسب نہیں،اسی عدالت نے مارشل لا کی بھی آئینی توثیق کی ہے،مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، کہا جاتا ہے کہ باپ کے گناہوں کا ذمہ دار بیٹا نہیں ہو سکتا،سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو طلب کرلیا،چیف جسٹس نے کہاکہ جو تنقید کرنی ہمارے سامنے کریں۔

  بعدازاں سپریم کورٹ نے پیمرا سے پریس کانفرنسز کی ویڈیو ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ طلب کرکےکیس کی سماعت 5 جون تک ملتوی کردی ۔

  خیال رہے کہ 15 مئی کو سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔

   ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، 15 روز ہوگئےجواب نہیں آیا، 19 اے کے تحت مجھے جواب دیا جائے، بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔