(قیصر کھوکھر) وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار ایک چھپے رستم نکلے ہیں، عمران خان نے کہا تھا کہ وہ وسیم اکرم ثابت ہونگے ،تو انہوں نے چپکے سے وار کر دیا اور عمران خان اور تحریک انصاف کی پالیسیوں کو چاروں شانے چت کر دیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اپنے لئے تاحیات مراعات پنجاب اسمبلی سے منظور کرا لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے بارے میں وزیر اعلیٰ کے طور پر نامزدگی کے موقع پر عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے گھر اور گاﺅں میں بجلی بھی نہیں اور یہ کہ ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ یہ وزیر اعلیٰ بن کر جنوبی پنجاب کی محرومیاں ختم کریں گے، لیکن انہوں نے تو اپنی محرومیاں ختم کرنے کی ٹھان لی ہے۔ انہوں نے لاہور میں اپنے لئے ایک سرکاری گھر بنانے کی بھی منظوری حاصل کی ہے۔ اس وقت پنجاب اسمبلی کے منتخب ہونے والے تمام ارکان اسمبلی کا تعلق امیر ترین گھرانوں سے ہے اور کوئی بھی غریب گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا ۔
جب اسمبلی کروڑ پتی افراد پر مشتمل ہو تو اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کا جواز نہیں بنتا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مہنگائی کا خاتمہ کیا جاتا اور عمران خان کے وعدے کے مطابق سادگی اپنائی جاتی، جیسا کہ تحریک انصاف نے الیکشن میں عوام سے وعدہ کر رکھا ہے۔ ارکان اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کےلئے تاحیات سرکاری گھر اور تنخواہوں میں اضافہ تحریک انصاف کے منشور کے بھی خلاف ہے اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے سارا نظام ہی تبدیل کرنے کی بجائے اپنی اپنی قسمت کو تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے ۔ حکومت کے پاس وسائل پہلے ہی کم ہیں اور حکومتی عہدیداروں کے اخراجات میں اضافے کےلئے بجٹ پر ایک مزیدبوجھ بڑھ جائے گا۔ قومی خزانے سے غریبوں کو مراعات اور سہولتیں دینے کی بجائے حکمرانوں نے ازخود ہی اپنے لئے سرکاری خزانے کے منہ کھول لئے ہیں۔
گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کرنے اور بازاروں اور مارکیٹوں کی اشیاءکی قیمتوں کو کم کرنے اور بجلی ، گیس اور پٹرول کی مد میں عوام کو سبسڈی دینے کی بجائے ارکان اسمبلی جو کہ خزانے کے محافظ ہوتے ہیں انہوں نے خود کیلئے مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرنے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کےلئے تاحیات سرکاری گھر بنانے جیسی مراعات حاصل کر کے عوامی مینڈیٹ کی توہین کی ہے۔ ارکان اسمبلی کا کام ایک پبلک سروس ہے، یہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور عوام سے یہ وعدہ کرکے منتخب ہوتے ہیں کہ وہ اسمبلی میں پہنچ کر عوام کے لئے کام کریں گے اور عوامی مفادات کا تحفظ کریں گے۔ یہ کہ عوام کی ایک ایک پائی کوصحیح سمت میں استعمال کریں گے لیکن ہمارے ارکان اسمبلی اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اسمبلی کی خدمت اور عوامی خدمت کو ایک نوکری بنا لیا ہے اور وہ تنخواہ مانگ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ خود ہی تنخواہوں میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔
اگر ارکان اسمبلی نے اسمبلی کو نوکری کے برابر سمجھنا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ سرکاری نوکری کر لیں اور عوام اپنے منتخب نمائندے کسی اور کو منتخب کر لیں۔ پبلک سروس اور سرکاری نوکری میں ایک فرق ہوتا ہے، ارکان اسمبلی عوامی نمائندے ہوتے ہیں اور یہ حکومت ہوتے ہیں۔ سرکاری ملازم جو تنخواہ لیتے ہیں وہ عوام اور ان عوامی نمائندوں کے نوکر ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کو حکمران اور عوامی نمائندے رہنے دینا چاہئے انہیں نوکر نہیں بننا چاہئے ۔ اس طرح اتنی بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے تاحیات سرکاری گھر اور دیگر مراعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ارکان اسمبلی کتنے زر پرست ہیں۔ اور کل کلاں کوئی بھی ان ارکان اسمبلی کو خرید سکتا ہے۔پنجاب اسمبلی میں ہارس ٹریڈنگ کے جراثیم موجود ہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ سرکاری ملازمین کو مہنگائی کے بوجھ سے نکالا جاتا اور عام شہریوں کو مختلف اشیاءکی قیمتوں کو کنٹرول کرکے سرکاری مقرر کردہ نرخوں کے مطابق خرید و فروخت کا نظام اپنایا جاتا ،لیکن یہاں گھر کے مالک ہی لوٹ مار میں شریک ہو چلے ہیں اور دیگر کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے نعرہ بلند کیا تھا کہ وہ جنوبی پنجاب کو ایک الگ سے صوبہ بنائیں گے اور اب لاہور میں تاحیات سرکاری گھر حاصل کر کے انہوں نے اپنے ہی نعرے کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے اس اقدام سے حکومت کا دوہرامعیار سامنے آیا ہے جس کے باعث پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
عمران خان نے مقبولیت کے گرنے والے گراف کو قابو کرنے کی کوشش تو کی ہے مگریہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو اعتماد میں لئے بغیر ہی تنخواہوں میں اضافہ کرلیا۔ اب اطلاعات یہ ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے گورنر پنجاب کو تنخواہوں میں اضافے کے بل پر دستخط کرنے سے روک دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب پنجاب اسمبلی اپنی تنخواہوں میں کیا گیا یہ اضافہ واپس لیتی ہے یاعوام کو ایک بار پھر بیوقوف بنایا جاتا ہے