حکومتی ظلم کا انصاف لینے کے لیے جمع ہوئے ہیں: مصطفیٰ کمال

حکومتی ظلم کا انصاف لینے کے لیے جمع ہوئے ہیں: مصطفیٰ کمال
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 سٹی42: پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ بدترین آمریت میں بھی سانحہ ماڈل ٹاون جیسا ظلم نہیں دیکھا۔ آج کا دن سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

مال روڈ پر اپوزیشن کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ ماڈل ٹاؤن میں نہتوں پر گولیاں برسائی گئیں لیکن خاموشی سے ظلم سہنے والا ظالم ہے۔ 4سال بعد بھی متاثرین کو انصاف نہ مل سکا۔ مگر آج کا دن سنہرے حروف میں لکھاجائے گا۔ عوام نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ پنڈال میں موجود لوگوں نے مظلوموں کا ساتھ دیا جبکہ تمام جماعتیں ایک ہی مقصد کے لیے جمع ہوئی ہیں۔

مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ اس تحریک میں شامل ہو کر لوگوں نے اپنی عاقبت کو سنوار لیا ہے۔ مجھے دکھ کے ساتھ اس منظر کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ہم سب لوگ یہاں کس بات کے لیے جمع ہیں؟ اس پنڈال میں ملک کے سابق صدر، کئی وزرائے اعلیٰ، سابق وزیر اعظم  اور کئی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے  قائدین یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں؟ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہم سب یہاں چار سال پہلے ہونے والے حکومتی ظلم کا انصاف لینے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میری آنکھیں یہ منظر دیکھ رہی ہیں کہ پاکستان اور اسلام کے نام پر میری قوم میں اتنا شعور ہے کہ ہم اپنے سیاسی و مذہبی اختلافات کو دور کر کے ایک ہی جگہ مظلوموں کے لیے اکٹھے اور متحد ہیں۔پارٹی سربراہ نے کہا کہ چار سال پہلے جو کچھ جمہوری حکومت کے دور میں ماڈل ٹاؤن میں ظلم ہوا، ایسا ظلم تو بدترین سے بدترین آمریت میں بھی نہیں ہوا۔

جلسہ سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ظالم حکمرانوں سے پہلے آج خاموش رہنے والوں کو اللہ کی عدالت میں جواب دینا پڑے گا۔ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا خون اتنا پاکیزہ تھا کہ تم نے پاکستان میں انصاف کے حصول کی بنیاد ڈال دی ہے۔ اس بنیاد کو محدود نہیں ہونا چاہئے۔

مزید انھوں نے واضح کیا کہ اس پاکستان میں ہر سال 53 ہزار بچے پینے کا صاف پانی نہ ملنے سے مر رہے ہیں۔ میں کراچی سے اس لیے آیا ہوں کہ آپ کو بتاؤں اگر  تمہیں گولی لگتی ہے تو  کراچی والوں کے دل زخمی ہوتے ہیں۔ میں یہی چاہتا ہوں کہ اگر کراچی والوں کو کوئی تکلیف ہو تو لاہور والوں کو بھی اس کی تکلیف ہو۔ لاہور سمیت پورے پاکستان کا دل دکھنا چاہئے۔