دلیپ کمار کی زندگی پر ایک نظر۔۔۔سلیم بخاری

دلیپ کمار کی زندگی پر ایک نظر۔۔۔سلیم بخاری
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(حصہ دوئم)

دلیپ کمار۔۔۔۔دیومالائی اداکار

ہندی فلموں کی تاریخ کاسب سے قدآور فن کار

٭”ٹریجڈی کِنگ“ ان کی شخصیّت کا مضبوط حوالہ تھا مگر وہ اس وجہ شُہرت سے پریشان رہتے تھے 

”فلم فیئر میگزین“کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے دلیپ کمار نے کہا تھا کہ ”میرے اور راجکپور کے درمیان بہت دوستی ہے، میں اور راج بھائیوں کی طرح ہیں، مجھے راج کے ماتونگا میں واقع گھرمیں ایک بیٹے جیسی پذیرائی ملتی تھی۔ راج ہی نے یہ مشورہ دیا تھا کہ میں اداکاری کو اپنا کیریئر بناﺅں، وہ مجھے کہتا تھا کہ میں ایک خوب صورت انسان ہوں اور سٹار بن سکتا ہوں۔  یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ دلیپ کمار کی شُہرت بحیثیت ٹریجڈی کِنگ ہوئی۔ اس ضمن میں ان کی فلم ”دیوداس“ایک بہت بڑا حوالہ ہے مگر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ خود دلیپ اس وجہ شُہرت سے پریشان رہتے تھے۔”فلم فیئر“ جریدے کے ساتھ ایک انٹرویو میں دلیپ نے کہا تھا کہ”میں ٹریجڈی رول بہت ہی کم عمر میں کرنے لگا تھا کیونکہ ٹریجڈی کردار ادا کرنے والوں میں سر جان گائل گڈ اور سرلارنس اولیور نے اپنی عمروں کے درمیانی حصّوں میں ٹریجڈی رولز کئے، انہوں نے جو کام 30 برس کی عمر میں کیا وہ مجھے 20 سال کی عمر میں کرنا پڑا اور یہ کردار کرنے سے میری ذات پر بہت اثرات مرتّب ہوئے۔ایسے رولز میں نے”دیوداس“کے علاوہ بھی کئی فلموں میں کئے۔ 

٭ دلیپ کمار نے کسی حد تک سفارت کاری بھی کی 

 سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب NEITHER A HAWK NOR A DOVE میں لکھا ہے کہ سائرہ بانو نے انہیں بتایا کہ دلیپ صاحب خصوصی طیارے سے دو مرتبہ پاکستان جا چکے ہیں۔یہ دورے کرنے کی درخواست ان سے بھارتی حکومت نے کی تھی۔ پہلی دفعہ وہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں آئے تھے اور دوسری دفعہ چند سال قبل دلیپ کمار نے اٹل بہاری واجپائی،جو اس وقت بھارت کے وزیراعظم تھےکے کہنے پر وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ جب بھی پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی بڑھتی ہے تو ہندوستان میں آباد مسلمانوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں اور ان سے درخواست کی کہ وہ حالات پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ یاد رہے کہ جب وہ ہلال امتیاز لینے پاکستان آنے والے تھے تو بمبئی میں ایک دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم کے کارکنوں نے انہیں دھمکیاں دی تھیں۔

 ٭دادی نے شیطانی نظرسے بچانے کےلئے سر کے بال منڈوا کر کاجل سے چہرے کو بدشکل بنا دیا 

  دلیپ کمار نے 2014ءمیں شائع ہونے والی اپنی سوانح عمری میں اپنی فلم اور ذاتی مِس نائر کے مطابق کتاب کے 25باب ہیں اور ایک علیحدہ حصّے میں دلیپ صاحب کی کچھ افراد کے حوالے سے یادداشتیں درج ہیں۔ دلیپ نے یہ کتاب اپنے والد محمد سرور خان اور والدہ عائشہ بیگم کے نام منسوب کی ہے۔اپنی والدہ کے حوالے سے وہ کہتے ہیں:”میں ان سے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتا ہوں کیونکہ مجھ میں اور میرے بہن بھائیوں میں جو میرٹ اور اقدار ہیں ان سب کا منبع وہ ہی تھی لیکن پورے خاندان پر میری دادی کا سکہ چلتا تھا اور وہ مجھ سے خصوصی شفقت کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ایک دفعہ ایک فقیر ہمارے گھر آیا اور دادی سے کہا کہ یہ بچّہ بڑی کامیابیاں سمیٹے گا۔لہٰذا اسے شیطانی نظر سے بچا کے رکھو۔فقیر کے کہنے پر دادی نے میرے سر کے بال منڈوا دیئے اور کاجل سے میرے چہرے کو بدشکل بنا دیا۔سکول کے سب بچّے مجھے دیکھ کر میرا مذاق اُڑاتے تھے۔

 ٭مدھوبالا نے بسترمرگ پردلیپ کودیکھ کرکہا”ہمارے شہزادے کوآخرکاراس کی شہزادی مل گئی،مجھے اس کی خوشی ہے۔

کتاب کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ دلیپ اور سائرہ بانوکو خدا نے تخلیق ہی ایک دوسرے کے لئے کیا تھا۔دلیپ اور سائرہ بانو کے پرستاروں کی ایک بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ وہ کبھی اس شادی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ دونوں کی عمروں میں بہت فرق تھا اور ہمارے ذہنوں میں دلیپ،مدھو بالا عشق کی یادیں ابھی تازہ تھیں۔کتاب کے مطابق مدھو بالا اور دلیپ کمار دونوں مدھو کے والد عطا اللہ کی سازشوں کا شکار ہوئے۔سائرہ بانوکی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دلیپ کے ماضی کے بارے میں مثبت انداز فکر رکھتی تھیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ 1966ءمیں شادی کے فوراً بعد مدھوبالا نے دلیپ کو فون کرکے ایک ارجنٹ ملاقات کی خواہش کی۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب مدھو بہت بیمار اوربستر سے لگی ہوئی تھی۔دلیپ نے سائرہ کو بتایا تو سائرہ نے ضد کرکے دلیپ کو ملاقات کے لئے بھیجا اور کہا کہ شاید وہ کسی مشکل سے دوچار ہے۔لہٰذا دلیپ مدھو کے گھر گئے، مدھو کو کسی معاملے میں مشورہ درکار تھا جو دلیپ نے دیا۔ دلیپ کے مطابق وہ بہت کمزور لگ رہی تھی مگر اس کے باوجود اس نے کوشش کرکے اپنے ہونٹوں پر وہی دلکش مُسکراہٹ سجائی،وہ دلیپ سے مل کر بہت خوش تھی،اس نے کہا :”ہمارے شہزادے کو آخرکار اس کی شہزادی مل گئی مجھے اس کی بہت خوشی ہے۔“

٭کہاجاتاہے دلیپ کومدھوکے دیگر رومانسز کی بھنک پڑگئی تھی اس لئے خود ہی فاصلہ پیداکرلیا

 کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صرف مدھوبالا کے والد کا کردار ہی واحد وجہ نہیں تھی،دلیپ کی مدھوبالا سے دوری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دلیپ کو مدھوبالا کے ماضی میں ہونے والے معاشقوں کی بھنک پڑ گئی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ ایسا ممکن ہے کہ فلمی دُنیا کے دوسرے ہیروز نے بھی مدھو کو متاثر کیا ہو اور وہ ان کی طرف مائل ہوئی ہو۔معروف اداکارہ نمی نے اپنی یادداشتوں میں اس کی تصدیق بھی کی ہے۔نمی مدھوبالا اور دلیپ دونوں کو اچھّی طرح سے جانتی اور ان کی باہمی محبّت سے بخوبی آگاہ تھی۔نمی نے 1954ءمیں بننے والی فلم”امر“میں دلیپ اور مدھو بالا کے ساتھ کام بھی کیا تھا۔نمی کا دعویٰ تھا کہ”امر“فلم کی شوٹنگ کے اختتام کے قریب ایسا لگنے لگا تھا کہ ان کا رومانس دم توڑ جائے گا۔نمی کو احساس تھاکہ دلیپ کو مدھوبالا اور پریم ناتھ کے تعلقات کا علم ہو گیا تھا جو دو فلمی ستاروں کے تعلقات سے بہت آگے بڑھ چکے تھے۔

٭دلیپ 1988ءمیں پاکستان آئے توپشاور پہنچ کرزمین کوچوم لیا،آبائی گھرکے درودیوارکافی دیرتک دیکھتے رہے

دلیپ کمار کے پرستاروں کی اَن گنت تعداد پاکستان میں بھی ہے بلکہ اگریوں کہاجائے کہ دلیپ کا نام ہاﺅس ہولڈ نیم ہے تو بے جا نہ ہو گا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر11 دسمبر 1922ءکو پیدا ہوئے اور ان کا خاندان 1930ءمیں بھارت کے شہر بمبئی کے نواح میں واقع ایک بستی میں منتقل ہوگیا۔اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے 13 جولائی 2014ءکو ان کے آبائی گھر کو پاکستانی نیشنل ہیریٹیج مونومنٹ قرار دیاتھا۔یاد رہے کہ 1988ءمیں دلیپ کمار نے پاکستان کا دورہ کیا اور پشاور پہنچ کر زمین کو چوم لیا تھا ،وہ اپنے گھر میں کافی دیر تک درو دیوارکو دیکھتے رہے، پھر جب وہ 1991ءمیں نشان امتیاز وصول کرنے پاکستان آئے تو بے پناہ ہجوم کے باعث اپنے گھر تک نہ پہنچ سکے تھے۔ان کا گھر پشاور کے تاریخی بازار قصّہ خوانی میں واقع ہے۔بالی وُڈ میں ہندو فلمسازوں اور ہدایت کاروں نے اکثر اور بے پناہ کوشش کی کہ کوئی دوسرا دلیپ کمار پیدا کیا جائے مگر قدرت نے چونکہ ایک ہی دلیپ پیدا کیا تھا اس لئے کوئی ان کا ثانی نہ بن سکا۔ راجندر کمار کو دلیپ جیسے بالوں کا سٹائل اور بولنے کا انداز دے کر بھی دلیپ نہ بنایا جا سکا۔ اس کے بعد منوج کمار کو بھی بہت پروموٹ کیا گیا مگر دلیپ صاحب دلیپ ہی رہے۔

جاری۔۔۔