سابق گورنر سردار لطیف کھوسہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے

Latif Khosa, PPP, PTI, Pakistan Bar Counsel, Supreme Court Bar Association, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: سابق گورنر سردار لطیف کھوسہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔
سردار لطیف کھوسہ نے آج اتوار کے روز پریس کانفرنس میں باقاعدہ طور پر  پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔طلیف کھوسہ کچھ عرصہ بانی پی ٹی آئی کے مقدمات میں وکیل کی حیثیت سے پیش ہوتے رہے، اب ان کی حیثیت بانی پی ٹی آئی کے مشیر کی سی ہے تاہم اب تک وہ رسماً پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔

ایڈوکیٹ انتظار سنگوٹہ ایڈوکیٹ شاداب جعفری،ایڈوکیٹ عمیر نیازی،طارق شاہ گھگا،رانا عامر،جمال خان،رائے فیصل،لیاقت علی لغاری ،ڈینئینل سہوترا،اشر شجرا،عبدالصمد علی ، نے بھی لطیف کھوسہ کے ساتھ  پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

اپنی پریس کانفرنس میں لطیف کھوسہ نے کہا کہ جمہور عوام ہے اور  ہماری ذہنیت ہی جمہوریت ہے۔میں پیار اور امن کا پیغام دینا چاہتا ہوں۔ جب بھی آئین پر یلغار ہوئی صرف وکیل  ہی باہرنکلا تھا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ وزراء کو ہٹانے کا کھیل تماشا آخر کب تک چلے گا۔ہم تواقع کرتے ہیں کہ عدلیہ انصاف کرے گی۔ریاست ہماری ماں ہے۔ عوام ریاست سے جان ومال چادر و چار دیواری کا تحفظ مانگتی ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر پاکستان کی خدمت کرنا پاگل بن ہے اور تو ہاں میں پاگل ہوں۔ہمیں ہمت کرنی ہوگی اور غلط کو غلط کہنا ہوگا۔ ہمیں کسی کو بھی خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ججز کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ انصاف فراہم کریں۔آئیں مل کر اپنی حدود میں رہ کر چلیں۔

وکیلوں کی سیاست

سردار لطیف کھوسہ تین مرتبہ ہائی کورٹ بار ملتان بنچ کے صدر منتخب ہوئے اور ملک میں وکلا  کی سب بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان بارکونسل کے تین مرتبہ رکن چنے گئے۔ سنہ دو ہزار میں لطیف خان کھوسہ نے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان کے پروفیشنل گروپ سے علیحدگی کرتے ہوئے الگ گروپ تشکیل دیا جسے بار کی سیاست میں کھوسہ گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ بار کا انتخاب بھی لڑا لیکن وہ وکیل رہنما حامد خان سے شکست کھاگئے۔

لطیف کھوسہ کا سیاسی افق پر طلوع

لطیف کھوسہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو اور  آصف علی زرداری کے وکیل اور قانونی امور کے مشیر رہے، بعد میں وہ پیپلز پارٹی کا باقاعدہ حصہ بن گئے تھے۔  دو ہزار دو کے عام انتخابات کے بعد  جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور سابق صدر آصف زرداری دونوں پاکستان سے باہر تھے لطیف کھوسہ  پیپلز پارٹی کی طرف سے سینیٹر منتخب ہوئے۔

معزول ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے شروع ہونے والی وکلا کی تحریک میں لطیف کھوسہ پیش پیش تھے تاہم اٹھارہ فروری کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس تحریک سے علاحدہ ہو گئے جس پر اُنہیں وکلا کی طرف سے نہ صرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ بعض ڈسٹرکٹ بار میں اُن کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ

سردار لطیف کھوسہ کوانیس اگست دو ہزار آٹھ کو جسٹس ریٹائرڈ ملک محمد قیوم کی جگہ اٹارنی جنرل مقرر کیا گیا تھا لیکن ایک سال کے بعد ہی انہیں اس وقت اٹارنی جنرل کے عہدے سے ہٹا دیا گیا جب مغفور شاہ نامی شخص نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں ان پر ایک مقدمے میں مدعی کو بری کروانے کے لیے ججوں کے نام پر اُن سے تیس لاکھ روپے لینے کا الزام لگایا گیا تھا۔

ایڈوائزر ٹو پرائم منسٹر

اٹارنی جنرل کے عہدے سے ہٹنے کے بعد  پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں دس فروری دو ہزار دس کو وزیر اعظم کا مشیر بنا دیا لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیْ دے دیا تھا جسے منظور نہیں کیا گیا۔ بطور مشیر لطیف کھوسہ نے اپنی ہی وزارت کے بارے میں وائٹ پیر بھی شائع کیا ۔بعد ازاں لطیف کھوسہ نے وزیر اعظم کے مشیر کے عہدے سے استعفیْ دے کر این آر او کیس میں بطور وکیل اپنا وکالت نامہ جمع کرایا اور اس مقدمہ میں حکومت کی طرف سے پیروی کی۔

گورنر پنجاب لطیف کھوسہ

سلمان تاثیر کے قتل کے بعد صدر نے لطیف کھوسہ کو پنجاب کا گورنر مقرر کیا۔ 3 جنوری 2011ء سے 2 جنوری 2013ء تک گورنر کے منصب پر فائز رہے۔

شہید بی بی کی میزبانی

بینظیر بھٹو  شہیدسابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی جلاوطنی ختم کر کے کراچی واپسی کے بعد جب لاہور میں آئیں تو انہوں نے لطیف کھوسہ کے گھر میں قیام کیا اور اس جگہ انہیں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ یہ بینظیر بھٹو کا لاہور کا آخری دورہ تھا اور یہ نظر بندی بھی ان کی زندگی کی آخری نظربندی تھی۔