فرخ احمد: سینئر صحافی سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ خان صاحب کو تو ریلیف مل ہی رہا ہے اب ان کے ساتھیوں کوبھی ریلیف ملنا شروع ہو گیا ہے، آج علی امین گنڈا پور کو بھی 11 مقدمات میں ریلیف مل گیا ہے حالانکہ ان پر جی ایچ کیو پر حملہ کیس بڑا اہم تھا، اگر سفر اب دوسری طرف شروع ہو گیا ہے تو خان صاحب باہر آئے کے آئے۔
معروف صحافی اور سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری نے 24 نیوز کے ٹاک شو ’دی سلیم بخاری شو‘ میں 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بانی پی ٹی آئی کی ضمانت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ آج اس کیس کی صحت پر بڑے سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں اور اب تک جتنے مقدمات میں پی ٹی آئی کے لیڈر اور پی ٹی آئی کے اوپر مقدمات بہت کمزور بنائے گئے تھے، ابھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ جن لوگوں نے یہ کیس بنائے تھے وہ اتنے کمزور کیوں تھے جبکہ ان کے بارے میں کہا جارہ اتھا کہ یہ تو اوپن اینڈ شٹ کیسز ہیں ان میں جرم کی نوعیت اور ثبوت اتنے واضح ہیں کہ سزا سے بچ جانا بڑی حیرت کی بات ہے اور یہ تو کھلی دھاندلی ہے۔سلیم بخاری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جتنا نقصان خان صاحب کی ساکھ کو مرزا شہزاد اکبر نے پہنچایا اور کسی نے نہیں پہنچایا کیونکہ خان صاحب کے دور حکومت میں مخالفین پر جتنے کمزور کیسز بنائے ان کی صحت جرم بھی بہت ہی کمزور تھی اور مخالفین آہستہ آہستہ ان کیسز سے بری ہوتے تھے اور شہزاداکبر خود امریکا چلے گئے جبکہ خان صاحب کی ساتھ کیلئے یہ کیسز بدنامی کا باعث بن گئے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر مقدمہ بے معنی ہے کمزور ہے اور کوئی ثبوت نہیں ہیں تو خان صاحب کو ریلیف ملنا چاہئے تھا یہ ملزم کا حق ہے کہ اس کو ریلیف ملنا چاہئے، ایسے کیسز جن میں ثبوت کمزور ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے ہیں وہ عدلیہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان تو ہیں لیکن ان لوگوں پر بھی ہے جنہوں نے ایسے مقدمات بنا کر جیلوں میں بھیج دیا ہے اور وہ جیل کاٹ چکے ہیں، ان کا یہ وقت کون واپس دلائے گا، پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے دعوؤں کے جواب میں کہ بانی پی ٹی آئی مئی میں جیل سے باہر آ جائیں گے اور جسے یہ کیسز کے فیصلے آ رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ اندرون خانہ کوئی ڈیل یا دھیل ہو چکی ہے۔
سائفر کیس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کیس میں اصل مجرم کو ہی سائیڈ پر کر دیا گیا حالانکہ سائفر کیس یہ تھا کہ سیکرٹ ایکٹ کے خلاف آپ نے سائفر کے مندرجات کو ایک جسلہ میں بیان کر دیا تھا، لیکن اب اس کیس میں سائفر کی گمشدگی کو بنیاد بنا کر کہ سائفر کو سنبھال کر رکھا وزیراعظم کی ذمہ داری نہیں تھی، ریلیف دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سلیم بخاری نے مزید کہا کہ خان صاحب کو تو ریلیف مل رہا ہے ان کے ساتھیوں کوبھی ریلیف ملنا شروع ہو گیا ہے، آج علی امین گنڈا پور کو بھی 11 مقدمات میں ریلیف مل گیا ہے، حالانکہ ان پر جی ایچ کیو پر حملہ کیس بڑا اہم تھا، اگر سفر اب دوسری طرف شروع ہو گیا ہے تو خان صاحب باہر آئے کے آئے۔
مولانا فضل الرحمان کے مطالبے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوبارہ الیکشن کرائے جائیں، مولانا صاحب کو 2018 اور 2024 کے انتخابات سے آؤٹ کرنے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، جب سے یہ مخلوط حکومت بنی ہے مولانا بہت سخت ناراض ہیں، باوجود اس کے کہ نواز شریف اور حکومتی نمائندے ان سے ملے ہیں، مولانا کی ناراضگی دور نہیں ہو سکی، وہ حکومت میں بڑا حصہ چاہتے تھے، ان کو یہ ادراک کرنا چاہیے تھا کہ مخلوط حکومت میں تمام اتحادی پارٹیوں کو ان کی نمائندگی کے تباسب سے شریک کرنا ہوتا ہے، لیکن شاید وہ یہ سمجھنا نہیں چاہتے اور انہوں نے بالکل الگ لائن لے لی ہے، مولانا پی ٹی آئی کا اتحاد ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے لئے نرم جذبات رکھتے ہیں۔
گورنر کےپی کے اور وزیر اعلیٰ کے پی کے کے درمیان ہونے والی کشمکش پر ان کی رائے تھی کہ یہ کسی جگہ نہیں ہوتا کہ وزیر اعلیٰ گورنر کی رہائش کو ہی بند کر دے ، انتہائی غیر جمہوری رویہ ہے اس کی مثال دیتے ہوے سلیم بخاری نے کہا کہ نوئے کی دہائی میں جب بے نظیر بھٹو اوزیر اعظم تھیں تو نواز شریف ان کے استقبال کیلئے نہیں جاتے تھے جو کہ اس وقت سب کیلئے عجیب صورتحال ہوتی تھی، امید ہے کہ گورنر کے پی کے سمجھداری سے معاملے کو حل کرلیں گے کیونکہ وہ میچور سیاستدا ن ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ گورنر صاحب کی کھانے کی دعوت پر علی امین گنڈ ا پور کیا جواب دیتے ہیں۔
آخر میں سلیم بخاری نے کہا کہ ہماری سیاست مفروضوں پر چل رہی ہے ، جب تک حقیقت کا دامن نہیں تھامیں گے حالات اسی طرح چلتے رہیں گے۔