نئے پاکستان کا بجٹ سرکاری ملازمین کا دشمن

نئے پاکستان کا بجٹ سرکاری ملازمین کا دشمن
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) عمران خان کی حکومت کی جانب سے دیئے گئے بجٹ میں عوام دوستی کم اور عوام دشمنی زیادہ پائی گئی ہے, یہ بجٹ بھی سابقہ ادوار کی طرح بیوروکریسی نے تیار کیا ہے اور لگتا ہے کہ بیوروکریسی نے اس بجٹ میں عوام پر اپنا غصہ نکالا ہے اور بجٹ میں کئی نئے ٹیکس شامل کر لئے گئے ہیں ۔خاص طور پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے ملازمین کے ساتھ ہاتھ کر دیا گیا۔

 لگتا ہے کہ بیوروکریسی میں اب بھی پی ٹی آئی مخالف موجود ہیں اس بیوروکریسی نے بجٹ تیار کرتے وقت اس حکومت کے منشور کا خیال نہیں رکھا اور اس بجٹ نے سب سے زیادہ سرکاری افسران اور ملازمین کو متاثر کیا ہے۔ پہلے ہی تنخواہ دار طبقہ ٹیکس دیتا ہے اور اب ان پر ٹیکس کی شرح میں اور اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو عوام نے اس بجٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے خاص طور پر سرکاری ملازمین پر تو نیا بجٹ بجلی بن کرگراہے ۔

 حکومت پنجاب نے گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد اضافہ کیا اور گریڈ سترہ سے گریڈ بیس تک کے افسران کی تنخواہوں میں پانچ فی صد اضافہ تجویزکیاہےلیکن ساتھ ساتھ ان تنخواہوں پر ٹیکسوں کی شرح میںبھی اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے عملی طور پر تنخواہ ایک جانب بڑھی ہے اور دوسری جانب اس پر ٹیکس سے تنخواہ نسبتاًکم ہوئی ہے جو اس مہنگائی کے دور میں ایک ظلم سے کم نہیں ہے۔

اس وقت ملک میں مہنگائی عروج پر ہے, دودھ، اشیاءخورونوش، پٹرول، ادویات ، سبزیاں، گوشت، سمیت تمام روز مرہ کی چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ڈالر کی پرواز رکنے کا نام نہیں لے رہی اور اس طرح ایک سرکاری ملازم کا اتنی تھوڑی سی تنخواہ میں گزارا مشکل تر ہو گیا ہے اور وہ گھر کا خرچہ چلانے کےلئے قرض لینے پر مجبور ہے ایک ملازم کی تنخواہ دس تاریخ کو ہی ختم ہو جاتی ہے۔

 ایک سرکاری ملازم جائے تو کہاں جائے بے چارہ نہ تو اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں پڑھاسکتا اور نہ ہی اچھی صحت کی سہولتیں فراہم کر سکتا ہے ۔ نجی سکولوں اور تعلیمی اداروں کا نام لیا جائے تو ان کی فیسیں بھی اتنی زیادہ ہیں کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے لیکن حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ کسی بھی مارکیٹ کا رخ کیا جائے تو اشیاءکی قیمتیں معلوم کر کے جان سی نکل جاتی ہے۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ ایمپلائز ایسوسی ایشن اور ایپکا نے اس بجٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تنخواہوں میں پچاس فی صد کی شرح سے اضافہ کیا جائے۔ یونین نے تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے تمام سرکاری ملازمین کی ہڑتال اور مظاہروں کابھی اعلان کیا ہے۔

ملک میں اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور وزیر اعظم سے لے کر سبھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی بڑھ گئی ہے اور اس مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے, ایک عام آدمی کےلئے روز مرہ کے معاملات چلانا مشکل تر ہو گیا ہے۔ گریڈ ایک کے ملازم کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار روپے ہے اور اس بیس ہزار روپے میں اس سرکاری ملازم کے گھر کا بجٹ بنانا انتہائی ناممکن کام ہے۔بچوں کی تعلیم، صحت کی سہولتیں، کچن کے اخراجات پورے کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیںاگر سرکاری ملازم کے تین بچے بھی ہیں تو یہ تمام اخراجات اور مکان کا کرایہ اس تنخواہ سے پورا کرنا ممکن نہیں۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بھی روزبروزاضافے نے سرکاری ملازمین کو پریشان کررکھاہے۔

ڈالرقابومیں نہیں آرہاجس کے باعث ہرچیزمہنگی ہوگئی ہے۔ حکومت بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ۔جنرل سٹور کی تمام اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور ادویات کی قیمتوں میں پہلے ہی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔دنیا بھر میں اشیاکی قیمتوں کو طلب اوررسد سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور ترقی پذیر ممالک جن میں بھارت، بنگلادیش، سری لنکا جیسے ممالک شامل ہیں وہاں اشیاءکی قیمتوں کو حکومت کنٹرول کرتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ملک میں مجسٹریسی نظام نافذ تھا ،اس وقت مجسٹریٹ مارکیٹ اور منڈیوں میں اشیاءکی قیمتوں کو چیک کرتے تھے اور قیمتوں کو تحصیل اور ضلع کی سطح پر مانیٹر کیا جاتا تھااور ضلع کا ڈپٹی کمشنر قیمتوں کو مانیٹرکرتا تھا۔ سبزی منڈیوں کو کنٹرول کرنے کی بھی ضرورت ہے سبزی منڈی کے مقام پر سبسڈی دی جائے تاکہ وہاں سے عام مارکیٹوں کو سستی اور معیاری اشیاءمل سکیں۔ شہر کی کسی بھی مارکیٹ میں چلے جائیں تو حکومت نام کی کوئی رٹ نظر نہیں آتی ہے۔ دکاندار من پسند قیمتیںوصول کر رہے ہیں۔

ان قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز کا نظام اس حکومت نے بکھیر کر رکھ دیاہے وہاں پر بھی ہڑتالیں اور احتجاج ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے پنجاب حکومت نے دکھاوے کے لئے چند رمضان بازار لگائے جہاں گھنٹوں لائنوں میں لگنے کے بعد ایک پاولیموں ملتا تھا،حکومت کے پاس ایسا کوئی انتظامی ڈھانچہ ہی نہیںجومہنگائی کو کنٹرول کرسکے۔ حکومت اگر ملک میں دہشتگردی کے ناسورپر قابو پاسکتی ہے تو مہنگائی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

مہنگائی کوئی دہشتگردی سے بڑا اژدھا تو نہیں۔ حکومت سرکاری ملازمین پر ٹیکس لگانے کی بجائے ڈاکٹروں، وکلاء، نجی تعلیمی اداروں کو ٹیکس کے نیٹ میں لائے۔ حکومت کوفوری اپنے بجٹ میں ترامیم کرنی چاہئیں، ایسی ترامیم جن سے بالخصوص سرکاری ملازمین کو ریلیف ملے، اُن کے گھر کا کچن چلے، بچے اچھی تعلیم اورصحت کی سہولیات حاصل کرسکیں۔ اگر حکومت اپنے ملازم کی دشمن بن جائے گی توکیابنے گا،کوئی کام نہیں کرے گاکوئی کارکردگی نہیں دکھائے گا۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر