ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی نیب طلبی

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی نیب طلبی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

قیصر کھوکھر: وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی نیب میں طلبی کے بعد پنجاب کی بیورو کریسی خوف زدہ ہے اور خاص طور پر سابق ڈی جی اکرم اشرف گوندل کے وعدہ معاف گواہ بننے پر ہر کوئی پریشان دکھائی دیتا ہے اور اب پنجاب کی افسر شاہی نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ کوئی بھی کام زبانی نہیں ہوگا اور ہر کام کرنے سے پہلے حکام بالا کی منظوری لی جائے گی۔

پنجاب حکومت میں یہ روایت رہی ہے کہ بڑے بڑے کام کرتے وقت حکام بالا زبانی کام چلاتے ہیں اور ماتحت افسران کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ ان کے زبانی احکامات پر عمل کریں۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو بھی کئی مقدمات میں نیب نے طلب کر رکھا ہے اور یہ کہ وہ جیل یاترا بھی کر چکے ہیں۔

اب اقتدار میں آتے ہی بزدار خاندان کے کئی افراد کے بارے میں میڈیا میں خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ماضی میں سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے افسر شاہی سے کئی زبانی کام کرائے اور سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعلیٰ ڈاکٹر توقیر شاہ نے اس وقت کی افسر شاہی کو زبانی احکامات دینے کا الزام ہے اور یہ بھی الزام ہے کہ ان اور سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹائون واقعہ ہوا جس کا ٹرائل ابھی تک عدالت میں چل رہا ہے

اور آئے روز ڈاکٹر طاہر القادری حکومت سے اس کیس کے حوالے سے اپیلیں کرتے نظر آتے ہیں اور وفاقی حکومت نے سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعلیٰ ڈاکٹر توقیر شاہ کو نہ ہی ابھی تک کوئی تقرری دی ہے اور نہ ہی گریڈ با ئیس میں ترقی ملی ہے جب بھی کوئی احتساب ہوتا ہے تو ہمیشہ کی طرح بیوروکریسی بچ جاتی ہے اور وعدہ معاف گواہ بن جاتی ہے۔

سابق وزیراعظم کے طیارہ کیس میں امین اللہ چودھری وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ نیب کو کسی بھی صورت میں سابق ڈی جی ایکسائز اکرم اشرف گوندل کو وعدہ معاف گواہ نہیں بنانا چاہئے اور نہ ہی ڈاکٹر راحیل صدیقی کو وعدہ معاف گواہ بننے کی آفر کرنا چاہئے۔ بیورو کریسی کا کام ہے کہ وزراء اور وزیراعلیٰ کو گا ہے بگاہے آگاہ کرتی رہے کہ یہ غلط کام ہے اور یہ غیر قانونی کام ہے اور یہ کام کل کو گلے پڑ سکتا ہے اور یہ کام میرٹ پر ہیں انہیں ہونا چاہئے

اور یہی اولین ڈیوٹی چیف سیکرٹری اور پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعلیٰ کی ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کو اعتماد میں لیں اور ان سے اچھے کام کرائیں جیسا کہ ماضی میں سابق چیف سیکرٹری پنجاب ناصر محمود کھوسہ کرتے رہے ہیں وہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اعتماد میں لیتے تھے اور انہیں یہ کام نہیں کرنا چاہئے یہی وجہ ہے کہ سابق چیف سیکرٹری ناصر محمود کھوسہ کا دور آج بھی افسر شاہی یاد کرتی ہے۔

یہ افسر شاہی حکومت کے ساتھ مل جاتی ہے کہ اچھی تقرری لینے اور ذاتی فوائد حاصل کرنے کیلئے حکومت کے غلط اور ناجائز کام بھی کر دیتی ہے اور حکومت کے ساتھ شیر شکر ہو جاتی ہے اور اگلے گریڈ میں ترقی اور پوسٹنگ لیتی ہے اور جب حکومت پر مشکل پڑتی ہے اور نیب یا اینٹی کرپشن میں کیس چلتے ہیں تو یہ افسران اسی حکومت کیخلاف وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں۔

یہ روایت غلط ہے اسے روکنا ہوگا اور نیب میں جتنے بھی اس وقت کیسز زیر التوا ہیں، ان میں چیئرمین کو فوری طور پر حکم جاری کرنا چاہئے کہ حکمرانوں کے ساتھ افسر شاہی کا بھی برابر کا ٹرائل کیا جائے اور کسی کو بھی معاف نہ کیا جائے سابق ڈی جی ایکسائز اکرم اشرف گوندل کو فون تو ڈاکٹر راحیل صدیقی کرتے رہے ہیں اور سمری پر بھی پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر راحیل صدیقی کے دستخط ہیں۔ نیب کیلئے اگر وعدہ معاف گواہ بنانا ضروری ہے کہ کسی غیر معروف کردار کو بنایا جائے جس سے انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو سکیں اور کوئی مرکزی کردار سزا سے بچ بھی نہ سکے۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر